عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سعی ہمارے امام صاحب (امام ابو حنیفہؒ ) کے نزدیک واجب ہے اور باقی تینوں ائمہ ؒ کے نزدیک یہ رکن (فرض ) ہے اور سعی کو طواف ختم کرنے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ اگر ایک طویل زمانہ کے بعد سعی کی تو اس پر کوئی جزا واجب نہیں ہے لیکن طواف کے بعد متصل ہی سعی کرنا سنت ہے ۱؎ (اور اس کی تفصیل سعی کی سنن میں مذکور ہے ،مؤلف)لیکن شرط یہ ہے کہ طواف اور سعی کے درمیان کوئی رکن حائل نہ ہو پس اگرکسی نے طوافِ قدوم کیا اورسعی نہ کی حتیٰ کہ وقوفِ عرفات کرلیا پھر اس نے ارادہ کیا کہ طوافِ قدوم کے بعد سعی کرے تو اب اس کو سعی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اب طوافِ زیارت کے بعد سعی کرے ۲؎ شرائطِ صحتِ سعی : سعی کی شرطیں چھ ہیں : (۱)خود اپنے فعل سے سعی کرنا اگرچہ کوئی شخص اس کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ہو یا کسی جانور وغیرہ پر سوار ہوکر کرے پس سعی میں نیابت جائز نہیں ہے لیکن پانچ شخصوں کیلئے نیابت جائز ہے جن کا ذکر فرائض طواف کے بیان گزرچکا ہے ۳؎ یعنی اس کی تفصیل یہ ہے کہ سعی میں نیابت جائز نہیں ہے لیکن بے ہوشی والے اور سوئے ہوئے مریض اور مجنوں جس کواحرام باندھنے سے پہلے جنون لاحق ہو اہو اور سعی کی ادائیگی تک باقی ہو، غیر ممیز (بے سمجھ) بچہ اور بالغ مجنوں یعنی جو جنون کی حالت میں بالغ ہوا ہو جبکہ بے سمجھ بچہ اور نابالغ مجنوں کی طرف سے اس کے ولی نے احرام باندھا ہو ان پانچوں کے لئے نیابت جائز ہے ۴؎ (۲) پورا طواف یا اس کا اکثر حصہ یعنی چار چکر یا زیادہ ادا کرنے کے بعدسعی کا ہونا، خواہ طواف پاکی کی حالت میں کیا ہو یا بے وضو یا جنبی ہونے کی حالت میں کیا ہو ۵؎ اور محیط