عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ گھوڑا حلال ہے لیکن جہاد کا جانور ہونے کی وجہ سے امام صاحب نے اس کے گوشت کو مکروہ کہا ہے۔ دیگر متفرق مسائل نجاست: سانپ کی کھال نجس ہے اگر چہ اس کو ذبح کیا ہو اس لئے کہ وہ دباغت کو قبول نہیں کرتی سانپ کی کینچلی صحیح یہ ہے کہ پاک ہے۔ سوتے ہوئے آدمی کی رال پاک ہے برابر ہے منھ سے نکلی ہو یا معدے سے آئی ہو، ے طرفین کے نزدیک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے، مردے کے لعاب کو بعضوں نے نجس کہا ہے، ریشم نکے کیڑوں کا پانی اور اس کی آنکھ (کویا) اور بیٹ پاک ہے، چمگادڑ کا پیشاب اور بیٹ بھی پاک ہے، جو پرندے حلال ہیں جیسے کبوتر، چڑیا، مینا وغیرہ ان کی بیت بشرطیکہ بودار نہ ہو پاک ہے سوائے مرغی، بطخ اور مرغابی کے، گھوڑی اور گدھی کا دودھ پاک ہے یہی اصح ہے البتہ بے ضرورت اس کو نہ استعمال کیا جائے۔ جانور کے ذبح کے بعد جو خون اس کی رگوں میں باقی رہتا ہے اگر چہ بہت سا کپڑے کو لگ جائے تب بھی اس سے ناپاک نہیں ہوتا اور اس کا کھانا حلال ہے۔ اور یہی حکم اس خون کا ہے جو ذبح کے بعد وشت میں باقی رہ جاتای ہے اس لئے کہ وہ خون جاری نہیں اور جو جاری خون گوشت میں لگ جاتا ہے وہ نجس ہے۔ جگر، تلی اور دل میں جو خون باقی رہا وہ نجس نہیں کیوں کہ وہ دم مسفوح کی قید سے نکل گیا۔ مچھر، پسو، چوں، مکھی، چھوٹی چچڑی، کھٹمل کا خون پاک ہے اگر چہ بہت ہو اور جو خون بدن سے جاری نہ ہو پاک ہے۔ مچھلی اور پانی میں جینے والے جانوروں کا خون امام ابو حنفیہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک کپڑے کو پلید نہیں کرتا، شہید کا خون جب تک اس کے جسم پر ہے پاک ہے (یہ چودہ خون حیوانات میں مستثنیٰ ہیں کہ ناپاک نہیں) چوہے کی مینگنی گیہوں (غلہ) میں گر جائے