عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں نہیں ہوتے ورنہ چھوٹے اور بڑے موتی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ ان سے رمی جائز نہیں ہے کیونکہ جنسِ زمین سے نہ ہونے کی علت دونوں میں پائی جاتی ہے۔ ۱؎ اور خلاصہ یہ ہے کہ رمی کے بارے میں تین امور ملحوظ ہوسکتے ہیں یا تو محض رمی کا لحاظ کیا جائے یا رمی کے ساتھ استہانت بھی ملحوظ ہوگی یا جس چیز سے آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رمی فرمائی ہے اس کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ پس پہلی صورت میں جواہرات سے بھی رمی جائز ہوگی اور دوسری صورت میں مینگنی اور بے قیمت لکڑی سے بھی رمی جائز ہوگی اور تیسری صورت میں محض پتھر سے رمی کرنا مخصوص ہوگا پس یہ اولیٰ ہوگا کیونکہ یہ زیادہ مقبول و پسندیدہ ہے۔۲؎ اور یہ بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ ماثور یہ ہے کہ شیطان کی حقارت و ذلّت کے لئے رمی ہو اور آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پتھر کی کنکریوں کے ساتھ رمی کا واقع ہونا اس سے بطریقِ دلالت یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ جو چیز جنسِ زمین سے ہو اس سے رمی کرنا جائز ہے پس اس بناء پر دوسری اور تیسری صورت کا معاً ایک ساتھ ہونا معتبر ہے پس مینگنی اور لکڑی سے رمی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی چاندی اور سونے سے رمی جائز ہے لیکن اس سے لازم آتا ہے کہ فیروزہ اور یاقوت سے بھی رمی جائز نہیں ہونی چاہیئے اس لئے آخری یعنی تیسری صورت ہی کو ترجیح دی جائے گی پس غور کرلیجئے۔ ۳؎ (۸) رمی کے وقت کاہونا ۴؎ اور وقت کی تفصیل بیان ہوچکی ہے پس رمی کے وقت سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے (مؤلف) رکنِ رمی : اکثر عدد رمی کا کرنا یعنی سات کنکریوں میں سے چار یا زیادہ کنکریوں کا مارنا ۵؎ یہ رمی کا رکن ہے اس کی شرط نہیں ہے ۶؎ اگر کسی