عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صحیح ہوجائے گالیکن امام صاحبؒ کے نزدیک اس کاایامِ نحر میں یعنی دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک کے ایام اور ان کے درمیان کی راتوں میں کرنا واجب ہے پس اگرطوافِ زیارت کی ادائیگی میں ایامِ نحر سے بلاعذر تاخیر کرے گا اگرچہ ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ یا اس کی رات کوہی کرے تو اصح قول کی بِنا پر یہ مکروہ تحریمی ہوگا اور وہ شخص بلاعذر تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوگااور اس پر دم واجب ہوگا ۱؎ اور اگر کسی نے طوافِ زیارت ہر گز نہیں کیا تو اس کے لئے بالا جماع عورت حلال نہیں ہوگی خواہ کتنا ہی طویل عرصہ ہوجائے اور خواہ کئی سال گزرجائیں ۲؎ اور اگر کوئی شخص طوافِ زیات ادا کرنے سے پہلے مرگیا تو اس پر واجب ہے کہ وہ بدَنہَ (اونٹ یا گائے) ذبح کرنے کی وصیت کرے کیونکہ اس کا یہ عذر صاحبِ حق کی طرف سے ہے یعنی منجانب اﷲ ہے اگر چہ وہ تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوگا غور کرلیجئے ۳؎ شرائطِ صحتِ طوافِ زیارت :ِ طوافِ زیار ت کے صحیح ہونے کے لئے چھ شرطیں ہیں : ۔(۱)اسلام اور عقل و تمیزوالاہونا۔ (۲) حج کا احرام ِ طوافِ زیارت سے پہلے باندھنا۔…(۳)وقوفِ عرفہ ِ طوافِ زیارت سے پہلے کرنا۔…(۴)نیت یعنی اصل طواف کی نیت ہونا شرط ہے اس کا طواف ِ زیارت کے ساتھ متعین کرنا شرط نہیں ہے ۔ (۵)زمانہ اوروہ ایامِ قربانی اور ان کی راتیں وجوب کے لئے اور اس کے بعد کا زمانہ آخر عمر تک جواز کے لئے ہے (جیسا کہ اوپر بیان ہوا)۔