عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے کہ جس شخص کے لئے طوافِ قدوم مسنون نہیں ہے اس کے لئے تقدیمِ سعی جائز نہیں ہے اھ جیسا کہ مالکی اور شافعی فقہا کا یہی مذہب ہے ۱؎ پس اہلِ مکہ اور جو اہلِ مکہ کے حکم میں ہیں ان کے لئے سعی کامؤخر کرنا(یعنی طوافِ زیارت کے بعد کرنا ) افضل ہے اس لئے کہ ان کے حق میں کوئی زحمت نہیں ہے کیونکہ ان کے فعل کے اعتبار سے سعی کے زمانہ میں توسع ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ کے نزدیک تقدیمِ سعی جائز نہیں ہے اور فقہا کی مخالفت سے بچنے والی صورت پر عمل کرنا بالاجماع مستحب ہے ۲؎ اور حج کی سعی کی تقدیم و تاخیر کی افضلیت کا یہ اختلاف جو اوپر بیان ہوا یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو قارن نہ ہو لیکن قارن کے لئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کو تقدیمِ سعی یعنی طوافِ قدوم کے بعد سعی کرنا افضل ہے بلکہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قارن کے لئے سعی کا مقدم کرنا سنت ہے ۳؎ (۷) اگر کسی آفاقی شخص نے حجِ افراد کے لئے قربانی کے دن یعنی طلوعِ فجر کی صبح صادق سے پہلے نیز وقوفِ عرفات کرنے سے پہلے مکہ مکرمہ آکر طواف کرلیا تو اس کا یہ طواف طوافِ قدوم کی جگہ واقع ہوجائے گا خواہ اس نے نیت میں طوافِ قدوم کا تعین کیا ہو یا نہ کیا ہو یعنی خواہ مطلق طواف کی نیت کی ہو یا نفلی طواف وغیرہ کی نیت کی ہو اس لئے کہ جس وقت جو طواف شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمادیا ہے اس وقت وہی واقع ہوتا ہے جبکہ اس نے اصل طواف کی نیت کی ہو جیسا کہ شرائطِ طواف میں اس کی تفصیل مذکور ہے ۴؎ قسمِ دوم، طوافِ زیارت : (۱) اس کو طوافِ رکن و طوافِ افاضہ و طوافِ حج و طوافِ فرض بھی کہتے ہیں نیز طوافِ یوم النحر بھی کہتے ہیں