عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکم اس وقت ہے جبکہ پانی لگنے سے خون جاری ہو جائے۔ زخم کی پٹی پر مسح کیا پھر وہ گر گئی اور دوسری تبدیل کی تو بہتر یہ ہے کہ وہ بارہ مسح کرے اور اگر دوبارہ مسح نہ کرے تب بھی جائز ہے، اسی طرح اگر اوپر کی پٹی دور ہو جائے تو نیچے کی پٹی پر مسح کا اعادہ واجب نہیں مستحب ہے، کسی شخص کی انگلی میں زخم ہے اور اس پر مرہم لگائے یا بکری کا پتہ لگائے اور زخم سے زیادہ جگہ پر لگ جائے پھر وضو کرنے میں اس پر مسح کرے تو سادی جگہ پر مسح کرے تو جائز ہے اور فصد کھلوانے والے کے حق میں بھی یہی حکم ہے اسی پر فتویٰ ہے۔ کسی شخص کی بانہوں پر زخم ہے اور پٹی بندھی ہوئی ہے اور اس کو مسح کی نیت سے پانی کے برتن میں ڈبویا تو مسح جائز نہیں اور پانی فاسد ہو جائے گا لیکن اگر ہاتھ کی انگلیوں یا ہتھیلیوں پر پٹی بندھی ہو تو وہ دھل جائے گا اور پانی مستعمل نہ ہوگا جبکہ اوپر نجاست نہ ہو اگر چہ اس نے مسح کا ارادہ کیا تھا، جبیرہ اور عصابہ پر مسح کرنا اس کے نیچے کے بند کے دھونے کے حکم میں ہے، مسح موزہ کی طرح خلیفہ اور بدلہ نہیں ہے اور جبیرہ اور عصابہ کا مسح موزہ کے مسح سے اکیس احکام میں مخالف ہے: ۱۔ بدل و خلیفہ نہیں، مسح موزہ بدل اور خلیفہ دھونے کا ہے، ۲۔ جبیرہ اور عصابہ کے لئے مدت مقرر نہیں، ۳۔ اگر پہلے جبیرہ و عصابہ کو بدل ڈالے تو دوسرے پر مسح کا لوٹانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، ۴۔ اگر اوپر نیچے دو جبیرہ باندھے ہوئے ہو اور ایک کو کھول ڈالے تو دوسرے پر مسح لوٹانا مستحب ہے واجب نہیں، ۵۔ اگر ایک پائوں میں جبیرہ باندھا ہو تو دوسرے پائوں کو دھولے بخلاف موزہ کے کہ ایک پائوں میں موزہ پہنے اور مسح کرے اور دوسرے کو دھوئے تو جائز نہیں، ایک پائوں کے جبیرہ کا مسح دوسرے پائوں کے جبیرہ کے موزہ کے مسح کے ساتھ یا دوسرے تندرس پائوں کے موزہ کے مسح کے ساتھ جمع نہیں کیا