عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ﷺ تشریف فرماتھے وہ جگہ پر ہوچکی ہے پس آنحضرت ﷺ کے سامنے کی طرف منڈیر پر بیٹھ گئے ، شریک فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب نے فرمایا کہ میںنے اس واقعہ کی تاویل ان کی قبروں سے کی ہے ۱؎ (یعنی یہ کہ حضرت ابو بکرؓوعمر ؓ کی قبو ر آنحضرت ﷺ کے متصل پہلو میں اور حضرت عثمانؓ کی قبر آنحضرت ﷺ کے سامنے فاصلہ پر واقع ہوگی واﷲ اعلم ،مؤلف) ۔اس کنوئیں کی ابتدائی تعمیر کا حال نامعلوم ہے ، یہ عہدِ نبوت سے پہلے کا بنا ہوا تھا اس کے پانی سے چرس کے ذریعہ باغ کو سیراب کرتے تھے اور پھل اور ترکاریاں خوب پیدا ہوتی تھیں ۲؎ لیکن اب یہ کنواں بالکل بند کردیا گیا ہے اور کا کوئی نشان باقی نہیں رکھا اس لئے اب زائرین اس کی زیارت سے محروم ہوگئے کا ش کہ حکومت اسکو نئے سرے سے کھدواکر لوگوں کے لئے اس کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع مہیا کرے کیونکہ علما نے لکھا ہے کہ اسکے پانی سے وضو یا غسل کرے اور اس میں سے پئے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کاپانی بھی زمزم کے پانی کی طرح جس مقصد کی نیت کرکے پیا جائے وہ پورا ہوجاتا ہے ۔(مؤلف) (۲) بیرِ غرس : مسجد قبا سے شمال مشرق کی جانب تقریباً نصف میل کے فاصلہ پر موضع قربان میں بُستا ن غرس میں واقع ہے ۳؎ غرس بقیع غین وسکون ِ را اُن چند مواضع کانام ہے جو اس کنوئیں کے اردگرد آباد ہیں اسی لئے اس کنوئیں کا نام بھی بیرِ غرس ہوگیا ۴؎ ۔ یہ کنواں حضرت سعد بن خثیمہ انصاری ؓ کی ملکیت تھا جن کا مکان ہجرت کے وقت آنحضرت ﷺ کی مردانہ نشست گاہ تھی ۵؎ ۔ یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کنوئیں کے پانی سے وضو فرمایا اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو اسی کنوئیں میں ڈالدیا۔ ابن حبان ؓ نے ثقات سے نقل کی ہے کہ انس بن مالکؓ