عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
وقوف کا حدودِ عرفات میں کسی جگہ اپنے وقت کے اندر ہونا وقوف کارکن ہے اگر چہ وقوف ایک لحظہ کے لئے ہی ہو اور خواہ کسی طرح سے ہو ، یعنی خواہ وقوف کی نیت سے ہو یا حج کی نیت سے یابغیر کسی نیت کے ہو اورخواہ اس کو اس بات کا علم ہو کہ یہ عرفات ہے اوراب وقوف کا وقت ہے یا اس بات کا علم نہ ہو اور خواہ سوتے ہوئے ہو یا جاگتے ہو ئے ہوخواہ بیہوشی کی حالت میں ہو یا افاقہ کی حالت میں ، خواہ جنون کی حالت میں ہو یا عقل کی حالت میں ، خواہ نشہ کی حالت میں ہو یا بغیر نشہ کی حالت کے ، خواہ بغیر ٹھہرے گذرتے ہو ئے ہو یا دوڑتے ہوئے ، اپنی مرضی سے ہو یا زبردستی سے کسی دشمن وغیرہ سے بھاگتے ہو ئے ہو یا کسی قرضدار کی تلاش میں جاتے ہوئے ہو، وضو سے ہو یا بے وضو ہو یا جنب کی حالت میں یا حیض و نفاس کی حالت میں ہو ،ننگا ہو یا لباس پہنے ہو ئے ہو،کھڑاہو یا بیٹھاہو اہو، دن میں ہو یا رات میں ہو کسی بھی طرح ہو اس کا وقوف صحیح ہو جائے گا جبکہ وقوف کے وقت کے اندر ہو لیکن مقدار وقوف جو فرض ہے وہ لطیف سی ساعت ہے یعنی تھوڑا سالمحہ ہے ۲ ؎ اگر وقوف کے وقت میں ایک لحظہ کے لئے بھی حدود عرفات میں داخل نہ ہو ا تو وقوف ادانہ ہوا ۔ ۳؎ واجبات وقوف وقوف عرفات میں صرف ایک چیز واجب ہے ( مئولف ) اور وہ یہ ہے کہ جو شخص دن میں یعنی غروب آفتاب سے پہلے ۔وقوف کرے اس کے لئے واجب ہے کہ جس وقت وقوف کیا ہے اس وقت سے غروب آفتاب کے ذرا بعد تک وقوف کو دراز کرے یعنی رات کا بھی کچھ حصہ وقوف میں آجائے کیونکہ یہ امام مالک رحمہ اﷲ کے نزدیک رکن ہے اور اگر کوئی شخص رات کے وقت میں پہنچا اور رات کو وقوف عرفہ کیا تو اس کے حق میں کچھ