عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے یہ کہاہے کہ یہ پانی کے کافی ہونے کی کم سے کم مقدار بیان کی گئی ہے اور یہ مقدار لازمی نہیں ہے بلکہ اگرکسی کو اس سے بھی کم کافی ہوجائے تو کم کرلے اور اگر کافی نہ ہو تو اس پر اور زیادہ کرلے کیوں کہ لوگوں کی طبیعتیں اور حالات مختلف ہوتے ہیں لیکن اسراف نہ ہو اور حد سے کمی بھی نہ ہو، پس اگر ُمد سے کم پانی میں اچھی طرح وضو کرلے تو جائز ہے اور وضو کیلئے ایک مد کی مقدار اس وقت ہے جبکہ استنجا نہ کرنا ہو اور اگراستنجا بھی کرنا ہو تو ایک رطل (تقریباً نصف سیر) پانی سے استنجا کرے اور ایک مدسے وضو کرے اور گر موزے (خفین) پہنے ہوئے ہو اور استنجا بھی نہیں کرنا ہو تو وضو کیلئے ایک رطل پانی کافی ہے اگر موزے پہنے ہوئے ہو اور استنجا کرنا ہوتو ایک رطل پانی سے استنجا کرے اور ایک رطل پانی سے پائوں دھونے کے علاوہ وضو کرے اور یہ سب مقداریں لازمی نہیں ہیں اس لئے کہ انسانوں کے اجسام وطبائع مختلف ہوتے ہیں (ع و بدائع و بحروش) شرعی صاع آٹھ رطل بغدادی کا ہوتاہے اور یہ عراقی صاع ہے جو کہ چار مد کا ہوتا ہے اور ایک مدد و رطل ہوتاہے، امام ابو حنیفہ ؒ نے اسی کواختیار کیاہے۔ (ش) رطل بیس مثقال یعنی ۱۳۰ درہم کا اور مثقال ساڑھے چار ماشہ کا اور ماشہ آٹھ رتی کاہوتاہے اور مد کی مقدار ۲۶۰درہم یعنی ۶۸ تولہ ۳ ماشہ ہے من کابھی یہی وزن ہے (جواہر الفقہ/ ص ۴۲۸ عن شامی وغیرہ) عام فہم حساب سے غسل کے لئے تقریباً چارسیر اور وضو کے لئے تقریبا ایک سیر پا نی کافی ہوجاتاہے۔ (مظاہر حق وغیرہ) غسل کا مسنون ومستحب طریقہ: جو شخص غسل کرنا چاہے اس کو چاہے کہ کپڑا تہبند وغیر باندھ کر نہائے اور اگرننگا ہوکر نہائے تو کسی ایسی جگہ نہائے جہاں کوئی نہ دیکھے، اگر ایسی جگہ نہ ملے توزمین پر انگلی سے ایک دائرہ کھینچ کر اس کے اندر بسم اللہ پڑھ کر نہائے،