عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے جنایت کا مرتکب ہوا ہے ۶؎ ۔…(۶) اور ظاہر ہے کہ مرتد ہوکر اپنے حج کو باطل کردینے کا وہی حکم ہے جو جماع کے ساتھ فاسد کردینے کا ہے اور کسی فقیہ کا اس مسئلہ کے درپے ہونا معلوم نہیں ہوا حالانکہ اس مسئلہ میں فقہا میں کوئی نزاع نہیں ہونا چاہیئے ۔ ۷؎ شرطِ ہفدہم : (۱) حج کا فوت نہ ہونا ۸؎ …(۲) حج فوت ہونے کی دو صورتیں ہیں یا مامور کے اختیار و کوتاہی سے فوت ہوگا یا اس کی کوتاہی کے بغیر یعنی کسی آسمانی آفت (قدرتی عذر) کی وجہ سے فوت ہوگا ۹؎ (دونوں صورتوں کے احکام آگے درج ہیں)…(۳) اگر کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنے والے (مأمور) کا حج اس کی اپنی کوتاہی سے فوت ہوگیا مثلاً وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا تو وہ نفقہ کا ضامن ہوگا خواہ اس کا حج احصار کی وجہ سے فوت ہوا ہو یا کسی اور وجہ سے کیونکہ احصار میں اس بات کا امکان ہے کہ یہ اس کی اپنی کوتاہی سے ہو مثلاً اس نے ایسی دوائی قصداً کھائی جو بیمار کردینے والی ہو اور اس کی وجہ سے وہ آگے جانے سے رُک گیا ہو، اور اگر کسی آسمانی آفت (قدرتی عذر) مثلاً بیماری یا اونٹ سے گر جانا وغیرہ کی وجہ سے اس کا حج فوت ہوگیا اور یہ قدرتی عذر خواہ حصار ہو یا کوئی اور عذر ہو اس صورت میں آمر کے امر کی مخالفت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نفقہ کا ضامن نہیں ہوگا ۱۰؎ کیونکہ اس کا حج اس کے اپنے اختیار و کوتاہی سے فوت نہیں ہوا ہے پس اس سے آمر کی مخالفت نہیں پائی گئی اس لئے اس پر ضمان واجب نہیں ہوگا ۱۱؎ ۔ (۴) جب مامور کا حج فوت ہوجائے خواہ اس کی کوتاہی سے ہو یا بغیر کوتاہی کے قدرتی عذر سے فوت ہوجائے تو وہ حج کے باقی افعال اسی طرح ادا کرے جس طرح حج شروع کرنے کے بعد حج فوت ہوجانے کی صورت میں کئے جاتے ہیں ۱۲؎ (یعنی صحیح حج والے کی طرح