عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حجِ بدل کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے لیکن اگر اس میں اداکی تمام شرطیں موجود ہیں اور وجوبِ حج کی تمام شرطیں موجود نہیں ہیں تو اس پر نہ خود حج کرنا فرض ہے اور نہ کسی دوسرے سے کرانا اور نہ مرتے وقت وصیت کرنا واجب ہے ۷؎ (جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، مؤلف) فرائضِ حج (۱) فرض عام ہے ارکان وشرائط اور ان کے علاوہ دیگر فرائض مثلاً عبادت میں اخلاص وغیرہ کو شامل ہے ۸؎ (۲) جاننا چاہئے کہ حج کے فرائض سات ہیں جن میں سے ایک شرط ہے اور دو رکن اور باقی مطلق ہیں یعنی شرط و رکن کے علاوہ ہیں ۹؎ پس حج کے اصل فرض تین ہیں :۔ اوّل : احرام باندھنا ۱؎ یعنی دل سے حج کی نیت کرنا اور تلبیہ (لبیک الخ) پڑھنا، یا اﷲ تعالیٰ کا کوئی اور ذکر کرنا جو تلبیہ کے قائم مقام ہو یاہدی کے گلے میں پٹہ ڈالنا اور اس کو ہانکتے ہوئے حج کی طرف لے چلنا اگرچہ لبیک نہ کہی ہو کیونکہ یہ بھی تلبیہ کے قائم مقام ہے ۲؎ احرام ایک لحاظ سے حج کی شرط ہے اور اسی لئے یہ وقت سے پہلے بھی جائز ہے ۳؎ ۔ یعنی احرام ابتدا کے اعتبار سے شرط ہے یہاں تک کہ اس کو حج کے مہینوں سے پہلے باندھ لینا جائز ہے جیسا کہ وضو نماز سے پہلے جائز ہے ۴؎ اگرچہ تقدیم مکروہ ہے جیسا کہ آگے آتا ہے ۵؎ اور ایک لحاظ سے احرام رکن ہے ۶؎ جیساکہ تکبیر تحریمہ ۷؎ یعنی انتہا کے اعتبار سے رکن ہے ۸؎ اسی لئے اگر کسی نابالغ بچے نے احرام باندھا پھر وہ بالغ ہوگیا تو اگر وہ اپنے احرام کی تجدید کرلے گا یعنی نئے سرے سے حج فرض کا احرام باندھ لے گا تو اس کا حج فرض کی