عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۶) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ خَرَجَ حَاجًَّااَوْمُعْتَمِراً اَوْغَازِیًاثُمَّ مَاتَ فِیْ طَرِیْقِہٖ کَتَبَ اﷲُ لَہ‘ اَجْرَالْغَازِیِّ وَالْحَاجِّ وَالْْمُعْتَمِرِ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان، (المشکوٰۃ)(یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے لئے نکلے پھر وہ راستہ میں مرجائے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے غازی اور حاجی اور معتمر کا اجر تحریر فرمادیتا ہے) ۴؎ عمرہ اور حج میں فرق : جاننا چاہئے کہ عمرہ کے سنت یا واجب ہونے کی شرائط وہی ہیں جو حج کے واجب ہونے کے ہیں جن کا بیان گزرچکاہے، اس لئے کہ واجب احکام کے حق میں فرض کے ساتھ ملحق ہوتا ہے اور اسی طرح سنت بھی اکثر احکام میں فرائض کے تابع ہوتی ہے اور عمرہ کے احکام بھی حج کے اکثر احکام کی مانند ہیں ،جو چیزیں حج کے احرام میں ممنوع یعنی حرام و مکروہ و مفسد ہیں وہ عمرہ کے احرام میں بھی حرام ومکروہ ومفسد ہیں اور عمرہ کے احرام کے سنن و آداب اور اس کا اپنے میقات سے باندھنے کا وجوب وغیرہ اکثر احکام حج کی مانند ہیں اسی طرح احصار اور دو یا زیادہ عمروں میں جمع کرنا و عمرہ کی نیت میں کسی دوسرے کی طرف اضافت کرنا اور رفضِ عمرہ اکثر احکام میں حج کی مانند ہے، صرف چند امور میں حج اور عمرہ میں فرق ہے اور وہ گیارہ امور ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں : (۱)عمرہ فرض نہیں ہے اور حج فرض ہے۔ (۲)حج کے لئے ایک خاص وقت معین ہے اور عمرہ کے لئے بالاتفاق کوئی خاص وقت معین نہیں ہے بلکہ تمام سال اس کے جواز کا وقت ہے، لیکن نویں ذی الحجہ سے تیرہویں ذی الحجہ تک ان پانچ دن میں ظاہر الروایت کے مطابق مکروہ ہے اگرچہ ان پانچ دنوں میں اس کا واقع ہونا صحیح ہے۔