عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہنے سے دمِ مجاوزت ساقط ہوجاتا ہے خواہ وہ واپس لوٹنے کی نیت کرے یا نہ کرے کیونکہ مقصود یعنی اس مبارک سرزمین کی تعظیم حاصل ہوجاتی ہے اھ۔ درمختار کے حاشیۃ المدنی میں اسی طرح ہے ۱؎ اہلِ حرم کا میقات : اہلِ حرم سے مراد وہ لوگ ہیں جوحدود حرم کے اندر رہتے ہیں خواہ وہ وہاں کے مستقل باشندے ہوں یادوسری جگہ سے آئے ہوں اور خواہ وہ مقیم ہوں یا مسافر ۲؎ پس جو لوگ مکہ معظمہ میں یا حدورِ حرم میں کسی اور جگہ مثلاً منیٰ وغیرہ میں رہتے ہوں حج کے لئے ان کا میقات حدودِ حرم کے اندر کی تمام سرزمین ہے اس میںجہاں سے چاہیں احرام باندھ لیں لیکن مسجد الحرام یعنی بیت اﷲ شریف کی مسجد سے احرام باندھنا افضل ہے اس کے بعد ان کو اپنے گھروں سے احرام باندھنا افضل ہے ۳؎ اور مسجدِ مذکور میں اکمل جگہ حطیم میںہے خصوصاً میزابِ رحمت کے نیچے ۴؎ اور حدِ حرم تک اس کو مؤخر کرنا جائز ہے ۵؎ اور مکہ مکرمہ اور حدودِحرم والوں کے لئے عمرہ کا میقات تمام زمین ِ حل ہے ۶؎ تاکہ انہیں عمرہ کرنے میں ایک قسم کاسفر حاصل ہوجائے ۷؎ جو کہ مشقت وتکلیف کا سبب ہے تاکہ مزیداجر حاصل کرے ۸؎ پس مکہ مکرمہ یاحدودِ حرم کارہنے والا شخص جب حج کا ارادہ کرے تو اس کا میقات حرم ہے اگر وہ زمین حل سے حج کااحرام باندھے گ تو اس پر دم (قربانی) واجب ہوگا اور جب وہ عمرہ کاارادہ کرے تواسکامیقات حِلّ ہے۔ اگر وہ زمین حرم سے عمرہ کااحرام باندھے گا تو اس پر دم (قربانی) واجب ہوگا کیونکہ اس نے ان دونوں صورتوں میں اپنے میقات کو ترک کردیا ہے حالانکہ وہ میقات بالاجماع ثابت ہیں ۹؎ پس حدودِ حرم میں رہنے والا جو شخص عمرہ کا ارادہ کرے وہ حدودِ حرم سے حل کی طرف جس جانب سے چاہے نکلے اور احرام باندھے لیکن