عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائز ہے بشرطیکہ وہ تری ٹپکتی ہو (ع) کیونکہ غسل میں تمام بدن بمنزلہ ایک عضو کے ہے (حاشیۂ انواع) (۱۲) اگر کسی شخص (کے اعضائے وضو) پر بارش کا پانی پڑ گیا یا وہ بہتی ہوئی نہر میں داخل ہوگیا (اور اس کے اعضائے وضو پر پانی پہنچ گیا) تو اس کا وضو ہوگیا اور اگر اس کے تمام جسم پر پانی پہنچ گیا اور اس نے کلی کرلی اور ناک میں پانی ڈال لیا تو اس کا فرض غسل بھی ادا ہوگیا۔ (ع) (۱۳) اگر کسی کے پائوں میں کوئی انگلی وغیرہ زائد پیدا ہوئی ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو ہاتھوں میں زائد انگلی وغیرہ پیدا ہونے کا بیان ہوچکا ہے۔ (بحر) فائدہ: وضو وغسل (او رتیمم) میں کوئی واجب نہیں ہے (در) بعض کتب میں واجب بھی الگ بیان میں لکھے ہیں جیسا کہ علم الفقہ میں ہے کہ وضو میں چار واجب ہیں (۱) بھویں یا ڈاڑھی یا مونچھیں گنجان ہوں تو اس قدر بالوںکادھونا جن سے جلد چھپی ہوئی ہے، باقی بال جو جلد سے آگے بڑھ گئے ان کادھونا واجب نہیں۔ (۲) کہنیوں کا دھونا (۳) چوتھائی سر کا مسح (بعض سرکا مسح فرض ہے) (۴) دونوں پائوں کے ٹخنوں کا دھونا (علم الفقہ) وضو وغسل میں کوئی واجب نہ ہونے سے ان حضرات کی مراد وہ واجب ہے جو عمل میں فرض سے کم درجے کا ہوا اور یہ واجب کی بہت ضعیف قسم ہے اور واجب کی دوسری مراد نہیںہے جو عمل میں فرض کی مانند ہے اور وضو میں کہنیوں کا دھونا اور چوتھائی سر کا مسح (بھووں اور جلدکے اوپر کی گنجان ڈاڑھی اور مونچھوں کادھونا، دونوں پائوں کے ٹخنوں کا دھونا) اور غسل میںمنہ اور ناک (کے اندرونی حصہ) کا دھونا دوسری قسم کا واجب ہے جو عمل میں فرض کی مانند ہے لیکن یہ فرض قطعی نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنے والے کو کافر کہا جاتاہے۔ (ش) چونکہ یہ فرض عملی ہیں اورا ن کے ترک کرنے سے بھی فرض قطعی کے ترک کی طرح وضو وغسل وتیمم نہیں ہوتا اس لئے یہ الگ نہیں لکھے جاتے۔ (مولف)