عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) وقوف کا وقت ہونا اور وقوف کا اول وقت یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کو زوال آ فتاب سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری وقت یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک ہے ۳ ؎ یعنی مذ کورہ اول وقت سوائے امام احمد رحمہ اﷲ کے باقی تینوں ائمہ کرام رحمہم اﷲ کے نزدیک ہے اور امام احمدرحمہ اﷲ کے نزدیک عرفہ کا تمام دن و قوف کا وقت ہے ان کے وزدیک زوال کے بعد سنت ہے اور آخری وقت جواوپر بیان ہواوہ باتفاقِ ائمہ اربعہ ہے ۴؎۔ یو مِ عرفہ میں اشتباہ واقع ہونا : (۱) اگر ذی الحجہ کے چاند میں اشتباہ واقع ہو گیا یعنی یہ شبہ ہوا کہ ذی الحجہ کی پہلی رات ہے یا ذ یقعدہ کی آخری رات ہے اور ذیقعدہ کے تیس دن پورے کر کے نویں ذی الحجہ کو یو مِ عرفہ گمان کرتے ہوئے وقوف عرفات کیا پھر ایک جماعت کی گو اہی سے معلوم ہوا کہ یہ دن جس میں وقوف عرفات کیا گیا ہے دسو یں ذی الحجہ کا دن ہے تو استحساناً ان کا وقوف صحیح اور ان کا حج پورا ہو گیا حتی کہ ان گواہوں کا وقوف و حج بھی پورا ہو گیا اور ان کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ اس میں شدید حرج ہے ۵؎۔ (۲) اور اگر یہ ظاہر ہوا کہ وہ گیا رہویں ذی الحجہ کادن ہے تو وہ وقوف جائز نہیں ہو گا اور اسی طرح اگر یہ ظاہر ہوا کہ وہ آٹھویں ذی الحجہ کا دن ہے تب بھی ان کا وقوف جائز نہیں ہوگا ۶؎ خواہ اس کا تدارک ممکن ہو مثلاً جس دن انہوں نے گواہی دی وہ دن عرفہ کا ہویا اس کا تدارک ممکن نہ ہو مثلاً انھوں نے دسویں ذی الحجہ کو گواہی دی ہو پس قاضی خاں کی شرح الجامع الصغیر میں ہے کہ اگر ظاہر ہوا کہ انھوں نے آٹھویں ذی الحجہ کو وقوف عرفہ کیا ہے تو جائز نہیں ہے خواہ ان کو دسویں ذی الحجہ ہی کو معلوم ہوا ہو ۷؎