عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قضا کی اقسام:قضا تین قسم پر ہے: ۱۔ مبرم حقیقی جو کہ علم الٰہی میں کسی شے پر معلق نہیں، ۲۔ معلق ِمحض کہ صحف ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلق ہونا ظاہر فرمادیا گیا ہے، ۳۔ معلق شبیہ بہ مبرم کہ صحف ملائکہ میں اس کی تعلیق مذکور نہیں اور علم الٰہی میں تعلیق ہے۔ مبرم حقیقی کی تبدیلی نا ممکن ہے۔ اکا بر مجبو بان خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے واپس فرمادیا جاتا ہے، حضرت نوح علیہ السلام کو اُن کے بیٹے کے بارے میں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عذاب ِقوم ِلوط کے بارے میںسفارش سے روکا گیا کہ اس خیال میں نہ پڑو بیشک ان پر وہ عذاب آنے والا ہے جو ٹلے گانہیں۔ یٰآ بِرھِیمُ اَعرِضُ عَن ھٰذَا ج اِنَّہ’ قَد’ جَآئَ اَمرُ رَبّکَ وَاِنَّھُم اٰتِیھِم عَذَابُ‘ غَیرُ مَردُودٍ (ہود :۷۶) ’’اے ابراہیم اس بات کو جانے دو تمہارے رب کا حکم آچکا ہے اور ان پر ضرور ایساعذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ہٹنے والا نہیں‘‘۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے شواہد قرآن وحدیث میں ہیں اور جو ظاہر قضائے معلق ہے وہ اکثر اولیاء اللہ کی دعااور ہمت و تصرف سے ٹل جاتی ہے۔ اور جسے علمِ الٰہی کے اعتبار سے معلق کہتے ہیں اور صحف ملائکہ کے اعتبار سے مبرم بھی کہہ سکتے ہیں اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادرجیلانی رضی اللہ عنہ اس کو فرماتے ہیں کہ میں قضائے مبرم کو ردّ کردیتاہوں اور اسی کی نسبت حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے اِنَّ الدُّعَآئَ یَرُدُّ القَضَآئَ بَعدَ مَااُبرِمَ ’’بیشک دُعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے‘‘ مزید تفصیل کے لئے مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ دفتراول مکتوب ۲۱۷ ملا حظہ فرمائیں۔ (۷) وَالبَعثِ بَعدَ الموَتِ :