عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وضو کا دوسرا فرض: دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک ایک بار دھونا (بدائع وم وغیرہما) اس کی تفصیل یہ ہے: ۱۔ ہمارے تینوں آئمہ کے نزدیک کہنیاں بھی دھونے میں داخل ہیں (بدائع و ع و غیرہما) یعنی کہنیوں سمیت (مؤلف) اور اگر کسی کا ہاتھ کہنی کے پاس سے کٹ گیا اور کہنی میں سے کچھ حصہ باقی نہیں رہا تو کہنی کا دھونا اس سے ساقط ہوگیا اور اگر کہنی یا اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو اس کا دھونا فرض ہے۔ (بدائع وفتح وبحروش ملتقطاً) ۲۔ اعضائے وضو پر اگر کچھ زائد مرکب ہو تو اگر وہ اس حصہ پر جس کادھونا وضو میں فرض ہے زائد پیدا ہوا ہو مثلاً ہاتھ میں اگر وہ کہنی سے نیچے کے حصے میں پیدا ہو جیسے زائد انگلی یا ہتھیلی تو اس کا دھونا بھی فرض ہے۔ (در و بحر و ع و ط تصرفاً) اور اگر وہ کہنی سے اوپر ہو مثلاً کندھے پر دو ہاتھ پیدا ہوں تو جو ہاتھ پورا وہی اصلی ہے اور اسی کا دھونا فرض ہے اور دوسرا زائد ہے اس زائد میں سے صرف اسی قدر کادھونا فرض ہے جتنا اصلی ہاتھ کے اس حصے کے بالمقابل ہے جس کا دھونا فرض ہے اور جتنا اس حصے کے بالمقابل نہیں ہے اس کادھونا فرض نہیں ہے (بحر و فتح و ع و ش و ط ملتقطاً) بلکہ اس کادھونا مستحب ہے (بحروع ودر) اورظاہر یہ ہے کہ اولا ً پکڑنے کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر وہ دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو پکڑ سکتا ہے تو ان دونوں یعنی اصلی وزائد ہاتھ کا دھونا فرض ہو گا اور اگر دونوں سے نہیں پکڑ سکتا تو اگر وہ دونوں ہاتھ پورے اور متصل (ملے ہوئے) ہیں تو دونوں کا دھونا فرض ہوگا اوراگر دونوں پورے ہوں مگر منفصل (الگ الگ) ہوں تو صرف اصلی ہاتھ کا دھونافرض ہوگا کہ جس کے ساتھ وہ پکڑ سکتا ہے (ش) اور اسی طرح انگلیوں کے درمیان پانی پہنچانا فرض ہے جبکہ وہ جڑی ہوئی نہ ہوں۔ (بحر) ، ۳۔ اگر وضو میں دھونے کی کسی جگہ