عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو اور کوئی شخص اس دن کا روزہ رکھے اور عرفہ و پیر کے روزے کی اکٹھی نیت کرلے تو یہ مسئلہ ابھی تک نہیں ملاکہ کس جگہ واقع ہوگا۔ قسم سوم: یعنی ایک روزہ مٰں کسی واجب اور نفل روزہ کی اکٹھی نیت کرنا ۔۱۔اگر کسی شخص نے ایک روزہ میں قضائے رمضان اور نفل روزے کی اکٹھی نیت کی تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک قجائے رمجان سے واقع ہوگا اور امام محمدؒ کے نزدیک نفل سے واقع ہوگا اور یہی حکم اس وقت ہے جبکہ قضائے رمجان کے علاوہ کسی اور واجب اور نفل روزہ کی اکٹھی نیت کی ہو اور ان مسائل مین امام ابوحنیفہؒ اام ابویوسفؒ کے ساتھ ہیں لیکن پوشیدہ نہ رہے کہ اس صورت میں اس روزے کے قضاسے واقع ہونے کے لئے شیخین کے نزدیک دو شرطیں ہیں اول یہ کہ قضا ونفل کی نیت رات کے وقت می ںیعنی طلوع فجر سے قبل کی ہو پس اگر ان کی نیت دن میں کی ہوگی تو بالا جماع وہ روزہ نفلی ہوگا کیونکہ قجا روزہ کی نیت دن مٰں کرنا درست نہیں ہے کمالایخفی۔ دوسرے یہ کہ قضا کا روزہ اس ک ذمہ لازم ہو پس اگر اس پر کوئی قجا روزہ لازم نہیں تھا اس کے باوجود اس نے قضاروزہ رکھااور نفل رزہ کی اکٹھی نیت کی تو بالا اتفاق وہ روزہ نفلی ہوگا۔ ۲۔یہ جواوپر بیان ہوا یہ اس وقت ہے جبکہ وہ واجب روزہ ایسا ہو جو مطلق نیت سے جائز نہ ہوتا ہو لیکن اگر کوئی شخص ایک روزہ میں نذرمعین اور نفل روزے کی اکٹھی نیت کرے تو بالا جماع نذیر معین سے وقع ہوگا۔ شیخین کے نزدیک تو اس کی وجہ ظاہر ہی ہے کیونکہ نذر نفل سے ارحج ہے اور امام محمد کے نزدیک اس لئے یہ حکم ہے کہ جب دو نتیتیں باہم متعارض ہوجائیں تو ساقط ہوجاتی ہیں اور اصل نیت باقی رہ جاتی ہے پس وہ نذر معین سے واقع ہوگا کیونکہ اصل نیت (مطلق نیت) نذیر معین