عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرائطِ صحتِ احرام : احرام صحیح ہونے کی شرطیں تین ہیں ۔ (۱) اسلام اور اس کا بیان پہلے ہوچکا ہے۔ (۲) نیت یعنی دل سے نسک یعنی حج یا عمرہ کے التزام کی نیت کرنا لیکن نیت میں نسک یعنی حج یا عمرہ کا متعین کرنا شرط نہیں ہے پس مبہم نیت کرنا اور یہ نیت کرنا کہ فلاں شخص نے جس قسم کا احرام باندھا ہے وہ بھی اسی قسم کا احرام باندھتا ہے صحیح ہے خواہ اس کو اس کے احرام کی قسم کا علم ہو یا نہ ہو۔ (تفصیل نیتِ احرام کے بیان میں ملاحظہ فرمائیں)۔ (۳) تلبیہ یا کوئی ذکر جو اس کے قائم مقام ہو یا اس کی بجائے ہدی کے گلے میں پٹہ ڈالنا اور اس کو حج کی طرف لے جانا صرف نیت کرلینے سے احرام میں داخل نہیں ہوتا بلکہ نیت کے ساتھ تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر پڑھنا ضروری ہے۔ ہدی کے گلے میں پٹہ ڈالنا اور اس کو حج کی طرف لے جانا بھی تلبیہ کے قائم مقام ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے صرف نیت کی اور تلبیہ نہ پڑھا تو وہ محرم نہیں ہوگا اور اسی طرح اس کا عکس یعنی کسی نے تلبیہ پڑھا اور نیت نہیں کی تب بھی محرم نہیں ہوگا اور صحیح مذہب یہ ہے کہ نیت اور تلبیہ (یا اس کے قائم مقام) کے پائے جانے سے احرام میں داخل ہوجائے گا اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نیت و تلبیہ دونوں کے ساتھ محرم ہوتا ہے یا دونوں میں سے ایک کے ساتھ اس شرط پر محرم ہوجاتا ہے کہ دوسرا بھی اس کے ساتھ پایا جائے اور معتمد وہ ہے جو شیخ حسام الدین شہید نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ احرام تلبیہ کے ساتھ شروع نہیں ہوتا بلکہ نیت کے ساتھ شروع ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جبکہ نیت تلبیہ کے وقت پائی جائے جیسا کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت نماز شروع کرنے والا ہوتا ہے تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ نہیں ۱؎ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک صرف نیت سے ہی محرم ہوجاتا ہے اور امام