عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۸) حموی ؒ نے کہا کہ اس سے معلوم ہوا کہ سلاطین و وزراء جو اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو بھیج کر حج کراتے ہیں وہ درست نہیں ہے کیونکہ ان کا عجز ان کی موت تک قائم نہیں رہتا اھ یا یہ کہ وہ سِرے سے عاجز ہوتے ہی نہیں اور صحیح نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اِن کا حج فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ وہ حج نفل واقع ہوتا ہے لیکن شرح اللباب میں شمس الاسلامؒ سے منقول ہے کہ سلطان اور اس کے وزراء محبوس کے حکم میں ہیں پس اُن کو اپنے اس مال سے جو حقوق العباد سے پاک ہو کسی دوسرے شخص کو بھیج کر حج کرانا واجب ہے اھ یعنی یہ حکم اس وقت ہے جبکہ ان کا عجز نذر کور ثابت ہوجائے اوران کی موت تک قائم رہے ۵؎ (۹) حج بدل کرانے والے کا عجز موت تک باقی رہنے کی شرط حج فرض کے لئے ہے نفلی حج کے لئے یہ شرط نہیں ہے ۶؎ پس نفلی حج میں قادر ہونے کی حالت میں بھی نیابت جائز ہے کیونکہ نفل کے بارے میں بہت گنجائش ہے ۷؎ اس لئے کہ نفلی حج کرانے سے مقصود ثواب حاصل کرنا ہے ۸؎ شرطِ چہارم : (۱)جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کی طرف س امر کا پایا جانا، پس اس کے امر کے بغیر اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج ادا کرنا جائز نہیں ہے یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے اپنی طرف سے حج کرنے کی وصیت کی ہو پس اگر کسی شخص نے اپنی طرف سے حج کرنے کی وصیت کی پھر کسی اجنبی شخص یا وارث نے اس کی طرف سے تبرعاً حج کردیا تو یہ جائز نہیں ہے یعنی یہ اصل (وصیت کرنے والے ) کے حج کی بجائے کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ حج اس نائب کا واقع ہوگا اور اس نائب کے لئے جائز ہے کہ وہ اس حج کا ایصالِ ثواب اصل یعنی وصیت کرنے