عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موزوں پر مسح کرنے کا بیان موزوں پر مسح کرنا رخصت ہے اور پائوں کا دھونا عزیمت ہے اگر اس کو جائزہ جان کر عزیمت اختیار کرے تو اولیٰ ہے البتہ اگر مسح نہ کرنے میں اس کی طرف رافضی یا خارجی ہونے کا شک کیا جائے تو مسح کرنا فاضل ہے، جو مسح موزہ کو جائز نہیں رکھتا وہ امام صاحب کے نزدیک بدعتی ہے، نیز جس کے پاس صرف اسی قدر پانی ہو کہ موزوں پر مسح کے ساتھ وضو کرسکتا ہے، یا وقت جاتے رہنے کا خوف ہو یا حج میں وقوفِ عرفات جاتے رہنے کا خوف ہو تو مسح واجب ہونا چاہئے۔ جو چیزیں موزوں پر مسح جائز ہونے میں ضروری ہیں ۱۔ موزہ (موزہ میں چار وصف ہوں: ۱۔ ایسے دبیز ہوں کہ بغیر کسی چیز سے باندھے پیروئں پر ٹھہرے رہیں، ۲۔ ان کو پہن کر تین میل یا اس سے زیادہ چل سکیں، ان کے نیچے کی جلد نظر نہ آئے، یعنی آنکھ لگا کر اس میں سے دیکھے تو کچھ دکھائی نہ دے، ۴۔ پانی کو جذب نہ کرتے ہوں یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کے نیچے کی سطح تک نہ پہنچے۔) ایسا ہو کہ اس کو پہن کر سفر کرسکے اور مسلسل تین میل (یعنی بارہ ہزار قدم) چل سکے اور ٹخنے ڈھک جائیں، ٹخنوں سے اوپر ڈھکنا شرط نہیں یہاں تک کہ اگر ایسا موزہ پہنچا کہ جس میں