عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اب صبر کا بیان ملاحظہ ہو۔ ہرمومن خصوصاً سالک کے لئے ضروری ہے کہ ہر سختی، بیماری یا تنگیٔ معاش کے وقت صبر کرے کیونکہ وصول الی اللہ سے پہلے راہ سلوک میں بڑی سخت آزمائشوں کاسامان کرنا پڑتا ہے اگر یہ مصیبت کے وقت راضی برضائے الٰہی رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر آفت دور ہوجاتی ہے اور اگر اس سے بھاگے اور نفرت کرے تو مصیبت اور سختی اورزیاد ہ بڑھتی ہے۔ سالکین اس بیماری یا سختی کو دور نہیں کرتے اور نہ اس کے دفعیے کے لئے کوئی حیلہ کرتے ہیں نہ اسے برا سمجھتے ہیں نہ اس نظر یے سے اس کا علاج وتدبیرکر تے ہیںبلکہ علاج وتدبیر کو درجہ اسباب میں رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے اندر سمجھتے ہوئے کرتے اور مؤثر حقیقی باری تعالیٰ کو جانتے ہیں وہ ہنسی خوشی بلاؤں کو قبول کرتے ہیں جس سے وہ بلا بفضلہ تعالیٰ دور ہوجاتی یا آسان اوربے ضرر ہو جاتی ہے۔ صبر کے پانچ درجے ہیں:۱۔ مطلق صبر اور وہ یہ کہ انسان دقّت سے اپنے نفس کو شکایت اوررونے چلانے سے روکے کیونکہ اس درجے میں خوشی سے صبر نہیں ہوسکتا۔ ۲۔ صبر جمیل، یعنی نفس کی خوشی ورغبت سے مشکلات پر صبر اختیار کرے اور شکایت وجزع وفزع وغیرہ ظاہر نہ کرے۔ ۳۔ نفس اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور قضا کے موافق ہو اور حق تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو۔ ۴۔ آفتوں اور تکلیفوں کے آنے سے نفس کی خوشی اور لذت حاصل ہو کہ نفس اس تکلیف کے ازالے کی خواہش نہ کرے بلکہ اسی میں گرفتار رہنا پسند کرے۔ ۵۔ فنا کے مقام میں کیونکہ سالک کی نظر سختی اور تکلیف کی طرف ہر گز نہیں جاتی اور یہ تمام مراتب کامل اولیاء اللہ علیٰ قدر مراتبہم ہیں کیونکہ جب دل سے غیر اللہ کی محبت بالکل نکل جاتی ہے تو اس کو ظاہر وباطن میں ہر حال میں خوشی حاصل ہوتی ہے اور کوئی سختی اُس کے لئے سختی نہیں رہتی۔ سالک کو غیر اللہ سے اپنے باطن کی صفائی لازمی ہے اور جتنا یہ غیر اللہ کی محبت