عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رکھے مگر سات دن پورے کرنے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے اور عدت گزارنے اور جمع کے بارے میں سات دن حیض کے مانے جائیں گے یعنی پورے سات دن کے بعد جماع کرسکتے ہے پہلے نہیں۔ اگر کسی بالغ لڑکی کو پہلی بات حیض آیا اور اس طرح جاری ہوگیا کہ پہلے دن خون دوسرے دن پاکی اور اسی طرح ایک دن چھوڑ کر ہمیشہ خون آتا رہا تو اس کا حکم اسی لڑکی جیسا ہے جو شروع سے متواتر خون دیکھے اور پاکی اسے نہ ہو یعنی ہر مہینے میں اول دس دن حیض کے شمار ہوں گے باقی بیس دن استحاضہ اور اسی طرح جس عورت کو جلدی جلدی خون آئے اور کامل طہر کا وقفہ نہ ملے یعنی پندرہ دن گزرنے نہ پائیں کہ پھر خون جاری ہو جائے تو امام ابو یوسفؒ کے نزیدک اس کو بھی خون جاری کا حکم دیں گے اور ہر مہینے اول کے دس دن حیض اور باقی بیس دن استحاضہ شمار ہوں گے اسی پر فتویٰ ہے۔ وہ احکام جو حیض سے مختص ہیں یعنی نفاس کے لئے ثابت نہیں پانچ ہیں: ۱۔ عدت کا تمام ہونا (اس کی صورت یہ ہے کہ اپنی زوجہ سے کہا کہ اگر تو بچہ جنے تو طالق ہے پھر اس نے بچہ جنا تو نفاس کے بعد تین حیض گذار کر اس کی عدت پوری ہوگئی لیکن اگر حیض پر طلاق معلق ہوتی تو وہ داخل عدت ہوتا، مزید تشریح طلا کے بیان میں آئے گی۔ ۲۔ استبرا کا تمام ہونا (استبرا کی صورت یہ ہے کہ حاملہ لونڈی خریدے اور اس کے بچہ پیدا ہوا اور ایک بچہ اس کے پیٹ میں ہے تو دونوں بچوں کے درمیان کا خون نفاس ہے مگر اس سے استبرا نہ ہوگا بلکہ دوسرا بچہ پیدا ہونے کے بعد ہوگا بخلاف حیض کے)۔ ۳۔ بلوغ کا حکم، یعنی حیض سے بلوغ ثابت ہوتا ہے نفاس سے ثابت نہیں ہوتا۔