عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بعد کرلے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اس کے بعد اس کو اختیار ہے کہ مکہ میں رہے یا تیرہویں ذی الحجہ کو رمی جمار کرنے کے لئے منیٰ واپس آجائے۔ اور اگر طوافِ زیارت وغیرہ ۱۰؍ یا ۱۱؍ذی الحجہ کو کرچکا ہے توبھی اس کیلئے جائز ہے کہ بارہویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں جمروں کی رمی سے فارغ ہوکر مکہ معظمہ واپس آجائے اس صورت میں اس سے تیرہویں ذی الحجہ کی رمی ساقط ہوجائے گی تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے منیٰ کی حدود سے باہر ہوجائے اوراگر غروبِ آفتاب سے پہلے حدودِ منیٰ سے نہ نکلا تواب اس کو تیرہویں ذی الحجہ کی رمی کے بغیر منیٰ سے جانا مکروہ ہے لیکن اگر تیرہویں ذی الحجہ کی طلوع ِ فجر سے پہلے پہلے منیٰ سے باہر چلاگیا تو تیرہویں کی رمی اس سے ساقط ہوجائے گی اور امام صاحب کے نزدیک ظاہر الروایت میں اس پر کچھ لا زم نہیں ہوگا البتہ ترک سنت کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور اگر طلوع فجر کے بعد منیٰ سے گیا تو بالاتفاق اس پر دم واجب ہوگا۔ ۱۲؍ ذی الحجہ کو یوم النفر الاول کہتے ہیں۔ چھٹا دن، تیرہویں ذی الحجہ کی رمی افضل یہ ہے کہ تیرہویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کرکے مکہ معظمہ جائے اس دن کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں، اس روز بھی جمہور کے نزدیک زوال کے بعد ہی رمی کرے اگر اس روز زوال سے پہلے رمی کی تو امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک کراہت تنزیہیہ کے ساتھ جائز ہے اور یہ استحسان ہے اورصاحبین کے نزدیک دوسرے دونوں کی طرح درست نہیں ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے اگر اس روز غروب آفتا ب تک بغیر کسی عذر کے رمی نہیں کی اور رمی کا وقت ادائً وقضائً فوت ہوگیا تو اب اس پر دم دینا متعین ہوگا۔ تیرہویں ذی