عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میقات کے لئے تمتع و قران کا منع ہونا اور بغیراحرام کے حدودِ حرم میںداخل ہونا مطلق طورپر مذکور ہے یعنی ہر میقات کے لئے اس لئے اہلِ ذی الحلیفہ بھی اس اطلاق میں داخل ہیں لیکن جو لوگ ذوالحلیفہ کے اس قدیم راستے سے خارج ہیں جس سے رسول اﷲ ﷺ تشریف لے گئے تھے جیسا کہ اہلِ بدر و صفر ا تو ان کے لئے آفاقی کی طرح جائز نہیں ہے کہ وہ (حدودِ حرم میں دخل ہونے کے لئے) میقاتِ جحفہ (رابغ) سے احرام کے بغیر آگے جائیں کیونکہ وہ اہلِ طریق ذی الحلیفہ نہیں ہیں لیکن ردالمحتار وغیرہ کے کلام کا مقتضیٰ یہ ہے کہ عام مستعمل راستے کا اعتبار ہے اگرچہ نیا ہوجیسا کہ تمام مواقیت کے لئے یہی حکم ہے نہ قدیم راستہ جواب متروک ہوچکا ہے۔ پس ظاہر یہ ہے کہ قدیم راستے کی کوئی قید نہیں ہے واﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ اعلم ۵؎ (خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ذوالحلیفہ سے مکہ مکرمہ کے قدیم یا جدید راستہ سے ہٹ کر دائیں یا بائیں جانب آباد ہیں ان کے لئے حدودِ حرم میں جانے کیلئے آفاقی کی طرح احرام کے بغیر جحفہ سے آگے جانا جائز نہیں ہے……لیکن جو لوگ قدیم یا جدید عام مستعمل راستے پر آباد ہیں ان کو احرام کے بغیر مکہ مکرمہ جانا جائز ہے جبکہ حج یا عمرہ کاارادہ نہ ہو، مؤلف) تتمّہ : ذوالحلیفہ سے مکہ مکرمہ کا وہ قدیم راستہ جس سے نبی کریم ﷺ تشریف لے جاتے تھے آج کل کے راستے سے وادی روحاء کے آخری حصے سے مسجد غزالہ کے نزدیک سے جو مکہ مکرمہ جانے والے کے بائیں جانب واقع ہے الگ ہوجاتا ہے اور اس قدیم راستے پر چلنے والا عرج اور ابواسے گزرتا ہے اور یہ شامی الجحفہ ہے لیکن آج کل لوگوں کا راستہ وادی روحاء کے بعد خیف بنی سالم یا صفرا اور بدر سے ہوکر گزرتا ہے، یہاں تک کہ وادی