عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرط ہے کہ واجب ہونے کے بعد پہلے ہی سال میں حج کے لئے نکلاہو جیسا کہ تعلیل کی دلیل سے ظاہر ہے ۴؎ (۳)اندھے شخص کے ساتھ کوئی رہبر ہو یا نہ ہو اس کے متعلق اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے (یعنی صحیح مذہب کی بنا پر اس پر خود حج کرنا فرض نہیں ہے لیکن صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں کسی دوسرے سے حج کرانا یا مرتے وقت حج کرانے کی وصیت کرنا واجب ہے ،مؤلف) امام ابو حنیفہؒ سے مشہور روایت یہی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک کسی دوسرے کی قدرت کے ساتھ قادر ہونے سے قادر نہیں ہوتا ۵؎۔ راستہ کا پُر امن ہونا : (۱)اصح قول کی بنا پر وجوبِ ادا کی دوسری شر ط جان و مال کے قتل و غارت سے راستہ کا پُر امن ہونا ہے ۶؎ کیونکہ وہ اس کے بغیرہ منزلِ مقصود تک پہنچنے پر قادر نہیں ہے اور مفتی بہٖ قول کی بنا پر غالب اوراکثر طور پر راستہ کا پُر امن ہونا معتبر ہے ۷؎ اور اس بارے میں ہمارے فقہا کا اختلاف ہے کہ راستہ کا امن وجوب حج کی شرط ہے یا وجوبِ ادا کی شرط ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ وجوبِ حج کی شرط ہے اور یہ امام ابو حنیفہؒ سے ابن شجاع کی روایت ہے اور بعض نے کہا کہ یہ وجوبِ ادا کی شرط ہے اس اختلاف کو ہمارے اصحاب کی ایک جماعت مثلاً صاحب بدائع و مجمع و کرمانی و صاحبِ ہدایہ وغیرہم نے ذکر کیا ہے ۸؎ اور فتح القدیر میں اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ وجوب ادا کی شرط ہے۔ پس اگر وہ شخص راستہ کا امن بحال ہونے سے پہلے مرگیا تو وجوبِ ادا کی شرط ہونے کی بنا پر اس پر وصیت کرنا واجب ہے (اور وجوبِ حج کی شرط ہونے کی بنا پر وصیت کرنا اس پر واجب نہیں ہے، مؤلف) حج کی وصیت کرنے کے وجوب میں یہ اختلاف اس وقت ہے جبکہ وہ شخص راستہ کا امن بحال ہونے سے پہلے