عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۲) طوافِ زیارت کا او ل وقت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک دسویں ذی الحجہ کے طلوع ِ فجر سے شروع ہوتا ہے پس اس سے قبل طوافِ زیارت کرنا صحیح نہیں ہے اور طوافِ زیارت کے صحیح و جائز ہونے کے لئے آخری وقت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے تمام عمر اس کا وقت ہے پس اگر کئی سال کے بعد بھی ادا کرے گا تو صحیح ہے لیکن امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا ایامِ نحر میں ادا کرنا واجب ہے پس بارہویں ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب سے پہلے تک کسی وقت ادا کرنا واجب ہے اگر بلاعذر اس سے مؤخر کرے گا تو اس کا طوافِ زیارت صحیح ہوجائے گا اور امام صاحبؒ کے نزدیک اس پر دم واجب ہوگا۔ (اور گنہگار بھی ہوگا) اور اگر کسی عذر مثلاً احصار یا حیض وغیرہ کی وجہ سے تاخیر کریگا تو اس پر دم واجب نہیں ہوگا ۹؎ اور طوافِ وداع کے لئے شرط یہ ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد واقع ہو اور اس کے لئے بھی آخری وقت کی کوئی حد نہیں بلکہ تمام عمر اس کابھی وقت ہے ۱۰؎ (اور ہر طواف کے وقت کی تفصیل اقسامِ طواف میں بیان ہوچکی ہے، مؤلف) مکانِ طواف : ہر قسم کے طواف کے لئے یہ شرط ہے کہ مسجدِ حرام کے اندر سے خانہ کعبہ کے گرد ہو خواہ مسجد حرام کی چھت کے اوپر سے ہو۱، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’وَلْیَطَّوَّ فُوُابِالْبَِیْتِ الْعَتِیْقِo ‘‘الآیۃ،سورۃ الحج ۱۰؎ پس شرط یہ ہے کہ طواف مسجدِ حرام کے اندر سے ہو مسجد کے باہر سے یعنی مسجد کے گرد طواف کرنا بالاجماع جائز نہیں پس اگر کسی شخص نے مسجد کے چاروں طرف باہر سے طواف کیا تو اس کو مسجد کا طواف کہا جائے گا بیت اﷲ شریف کا طواف نہیں کہیں گے ۱؎ ۱ جاننا چاہئے کہ تمام مسجدِ حرام کے اندر سے بیت اﷲ شریف کا طواف کرنا جائز ہے خواہ بیت اﷲ شریف کے قریب سے ہو یا دور سے حتیٰ کہ اگر کسی نے زمزم شریف کے پیچھے کی طرف سے یا مقام ِ ابراہیم