عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زیارت وقوفِ عرفات سے افضل ہے ۸؎ یعنی بعض لحاظ سے (مؤلف) اس لئے کہ وقوفِ عرفات کی صحت کے لئے نیت شرط نہیں ہے اور طواف کے لئے نیت شرط اور ضروری چیز ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے دشمن کے ڈر سے بھاگتے ہوئے طواف کیا تو اس کا طواف صحیح نہیں ہوگا اور وقوف و طواف میں فرق یہ ہے کہ طواف عبادتِ مقصودہ ہے اور اسی لئے طواف نفلی بھی ہوتا ہے پس اس کے لئے اصل نیت کا شرط ہونا ضروری ہے اگرچہ نیت میں تعین ہونا ضروری نہیں ہے حتیٰ کہ اگر کسی احرام والے نے دسویں ذی الحجہ کو طواف کیا اور اس میں طوافِ نذر کی نیت کی تو وہ طوافِ زیارت کی جگہ کافی ہوجائے گا اور نذر کی جگہ ادا نہ ہوگالیکن وقوفِ عرفات عبادت ِمقصودہ نہیں ہے اسی لئے وقوف نفلی نہیں ہوتا پس اصل عبادت یعنی احرام میں نیت کا ہونا وقوف میں نیت شرط ہونے سے بے نیاز کردیتا ہے یعنی احرام کی نیت اس کے لئے کافی ہوتی ہے حالانکہ وقوفِ عرفات حج کا اعظم رکن ہے لیکن ہرلحاظ سے نہیں بلکہ یہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ حج کو فاسد ہونے سے بچاتا ہے ۹؎ واجباتِ حج حج کے بلاواسطہ واجبات دراصل چھ ہیں اور کتبِ فقہ میں جو زائد واجبات اس عنوان کے تحت درج کئے گئے ہیں اور جن کو لباب المناسک اور اس کی شرح المُلّا علی قاری میں ترکِ محظورات سمیت پینتیس(۳۵) تک پہنچایا ہے وہ حقیقت میں بلا واسطہ حج کے واجبات نہیں ہیں بلکہ بالواسطہ ہیں یعنی حج کے افعال (فرائض واجبات) کے واجبات ہیں۔ مثلاً بعض احرام کے واجبات ہیں اور بعض طواف وغیرہ کے واجبات ہیں اور ان میں واجبات حج وواجبات ِ شرائط حج کو بھی شمار کرلیا ہے ورنہ حج کے بلا واسطہ واجبات چھ ہی ہیں ۱؎