عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جگہ ادا ہوجائے گا اور اگر نئے سرے سے حج فرض کا احرام نہیں باندھے گا تو اس کا حج فرض کی جگہ واقع نہیں ہوگا ۹؎ احرام کے انتہائً رکن ہونے کی وجہ ہی کہ اگر احرام باندھنے کے بعد کسی کا حج فوت ہوگیا تو اس کو آئندہ سال تک اس احرام کا باقی رکھنا اوراس سے آئندہ سال حج کرنا جائز نہیں ہے ۱۰؎ بلکہ اس کو چاہئے کہ عمرہ کے افعال ادا کرکے حلال ہوجائے اور آئندہ سال اس حج کو قضاکرے، اگر احرام محض شرط ہوتا تواس کا آئندہ سال تک باقی رکھنا جائز ہوتا ہے ۱۱؎ اس اصول پر اور فروعات بھی متفرع ہوتی ہیں جو شرح اللباب وغیرہ ہیں مثلا ً یہ کہ اگر کسی نے احرام باندھا پھر مرتد ہوگیا تو اس کا احرام باطل ہوگیا ورنہ مرتد ہونے سے حقیقی شرط باطل نہیں ہوتی جیسا کہ نماز کے لئے طہارت کا حکم ہے اور احرام میں نیت شرط ہے اور محض شرط میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی اوراحرام کا طوافِ زیارت وسعی ورمی کے لئے باقی رہنا شرط نہیں ہے اور احرام کا وقت سے پہلے باندھنا مکروہ ہے اوراس کا احرام دو عمروں کے لئے منعقد نہیں ہوتا اور جب حج نفل کے لئے احرام باندھ لیا جائے تو اس سے حج فرض ادا نہیں ہوتا ۱۲؎ (احرام کی پوری تفصیل الگ بیان میں درج ہے، مؤلف) دوم : وقوفِ عرفات اپنے وقت میں ادا کرنا اگرچہ ایک ساعت ہو ۱۳؎ اور وقوف کا وقت عرفہ کے دن یعنی ۹ ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور ۱۰؍ ذی الحجہ کی صبح صادق طلوع ہونے سے ذرا پہلے تک ہے ۱۴؎ سوم : طوافِ زیارت کا اکثر حصہ اپنے وقت اور اپنی جگہ میں کرنا ۱۵؎ اور رکن یعنی فرض ادا ہونے کے لئے طواف کا اکثر حصہ کل کا قائم مقام ہوجاتا ہے ۱۶؎ پس طواف کے چار چکّر فرض ہیں اور باقی تین چکّر واجب ہیں جن کے ترک پر دم واجب ہوتاہے جیسا کہ