عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۶۔ وضو میں دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھونے کلی اورناک میں پانی ڈالنے کو جبکہ یہ تینوں فعل سنت ہیں وضو کے پہلے فرض یعنی منہ دھونے پر مقدم کرنے میںیہ حکمت مفہوم ہوتی ہے کہ پانی کے اوصاف معلوم ہوجائیں کیونکہ وضو کے لئے پاک پانی ہوناچاہئیے ناپاک پانی سے وضو جائز نہیں ہے اور ناپاک پانی وہ ہے جس کے تینوں اوصاف یعنی رنگ ومزہ و بو میں سے کوئی وصف نجاست کی وجہ سے بدل جائے پس جب ہاتھ دھونے کے لئے چلو میںپانی لے گا تو آنکھ سے اپنی کا رنگ معلوم ہوجائے گاکہ بدلا ہے یانہیں اور جب کلی کے لئے منہ میں پانی ڈالے گا تو پانی کامزہ معلوم ہو جائے گا کہ متغیر ہواہے یا نہیں اور جب ناک میں پانی ڈالے گا تو اس کی بو معلوم ہوجائے گی کہ ٹھیک ہے یا بدل گئی۔ کلی کوناک میں پانی ڈالنے پر اس کے شرف کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہے۔ (ط ودروش تصرفاً وملتقطاً) وضو کے معنی: لغت میں وُضو (واو ٔکی پیش کے ساتھ) کے معنی پاکیزگی حاصل کرنا ہے اور شرعاً اس کے معنی مخصوص اعضا کو دھونا اور مسح کرنا ہے۔ (کبیری وم وغیرہما،) اس لئے دھونے اور مسح کرنے کی تعریف ضروری ہے۔ (بدائع) پس دھونے کا مطلب عضو پر پانی کا جاری کرنا (بہانا) ہے اس عضو کو ملنا شرط نہیںہے البتہ مندوب ہے اورخلاصہ میں ملنے کو سنت کہا ہے اور اس کی حد اعضائے غسل پر ہاتھ کا پھرانا۔ (بحروفتح) امام ابوحنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک اعضائے غسل پر پانی بہانے کی حد اصح قول کے مطابق یہ ہے کہ اس عضو سے کم از کم دو قطرے اسی وقت گریں۔ اور فتح القدیر میں ہے کہ ایک قطرے کا گرنا کافی ہے پس اگر پانی کو تیل کی طرح چیڑ لیا اور عضو سے کوئی قطرہ نہیں ٹپکا تو ظاہر الروایت کے مطابق کافی نہیں ہے اسی طرح اگر وضو کے کسی عضو پر برف ملی اور اس عضو سے کوئی قطرہ نہ ٹپکا تو کافی نہیں ہے اس سے دھونے کا فرض ادا نہیں ہوگا یہ قول صیحح ہے