عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیں کیونکہ حسبِ تصریح فقہا محلِ اختلاف میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنا بہتر ہے تاکہ اپنی عبادت کے جوازمیں کسی کا اختلاف نہ رہے اس کے علاوہ احرام کو میقات سے پہلے باندھنا سب ہی کے نزدیک افضل ہے بلکہ بعض روایاتِ حدیث میں اپنے گھر سے ہی احرام باندھ چلنے کی فضیلت آئی ہے ،شرط یہ ہے کہ محظوراتِ احرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو اور جس کو یہ خطرہ ہو کہ محظوراتِ احرام سے بچنا اس تمام عرصہ میں اس کے لئے مشکل ہوگا اس کے لئے آخری حد تک مؤخر کرنا بہتر ہے ایسے شخص کو آخری حد میں اتنی احتیاط کرلینا چاہئے کہ اس کااحرام علماء کے اختلاف سے نکل جائے۔ ’’ومن اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نسأل ان یھدینا لما اختلف فیہ الی الحق باذنہ وھوولی التوفیق والسدا دو الصواب وبہ نستعین ولاحول ولا قوۃ الا بہ ‘‘(البلاغ ذی قعدہ ۱۳۸۸ھ) دوسرے حضرات یعنی استاذ العلماء حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری قدس سرہ‘ اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی و حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی رحمھما اﷲکے مضامین ماہنامہ بینات صفرالمظفروشعبان المعظم ۱۳۸۸ھ ہجری کے شماروں میں پاک وہند کی میقات کی بارے میں شائع ہوچکے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے : (۱) فقہا ئے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر زائرینِ حرم کا گزر عین ان مواقیت پر سے ہو تو ان سے آگے بڑھنے سے پہلے پہلے احرام باندھ لینا واجب ہے اور کسی عین میقات سے گزر نہ ہو بلکہ کوئی سے دومیقاتوں کے درمیان حصہ کے کسی مقام سے گزر ہوتو ان دونوں میں سے کسی ایک میقات کی محاذات سے احرام باندھ لینا چاہئے اور اقرب من مکہ کی محاذات سے باندھنا افضل ہے پس اگر کوئی شخص اپنے راستہ کی آخری میقات یا اس کی محاذات سے احرام باندھے بغیر آگے بڑھ جائے گا تو جنایت کا مرتکب اورگنہگار ہوگا جس کا