عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دو آخرت میں: (۱) مومن دوزخی قطعی یعنی دائمی نہ ہوگا اگرچہ اس نے کتنے ہی گناہ کبیرہ کئے ہوں سوائے شرک کے اور بے توبہ مرا ہو آخر کسی نہ کسی وقت جنت میں جائے گا (۲) نیکیاں اوربدیاں وزن کی جائیں گی جس کی نیکیاں بھاری ہوں گی وہ کامیاب ہوگا اور اس پر اللہ تعالیٰ کاکمال درجہ فضل وکرم ہوگا اس کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کریں گے اور جس کی بدیاں غالب ہوں گی وہ بقدر گناہ سزابھگت کر جنت میں جائے گا۔ مومن عاصی کو اللہ تعالیٰ چاہے تو بغیر عذاب کے محض اپنے فضل وکرم سے یا حضرت شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت یا دیگر انبیاء واولیاء کی شفاعت سے بخش دے اورجنت میں داخل کردے اورچاہے تو بقدر گناہ عذاب کرکے پھر جلد ہی جنت میں داخل کرے۔ مؤمن کوناامید نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ ابھی اُوپربیان ہواکہ وہ مالک چاہے تو کبیرہ گناہ کو بھی بخش دے قال اللہ تعالیٰ لَاتَقنَطُو مِن رَّحَمَۃِ اللّٰہِ (الزمر:۵۳) ’’اللہ تعالی کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو‘‘ اور بے خوف بھی نہ رہنا چاہئے کیونکہ وہ مالک چاہے تو صغیرہ گناہ پر بھی عذاب دے۔ اسی لئے حضور انور علیہ السلام نے فرمایا اَلِا یمَانُ بَینَ الخَوفِ وَالرِجآئِ ’’ایمان خوف اور اُمید کے درمیان ہے۔‘‘ شرائط ایمان:ایمان کی سات شرطیں ہیں: (۱) ایمان بالغیب یعنی اللہ تعالیٰ پرایمان لانا اگرچہ اسے دیکھا نہیں اسی لئے مرتے وقت عذاب کے فرشتے دیکھ کر ان کے خوف سے توبہ کرنا اور ایمان لانا (ایمان بالباعس) معتبر اورمفید نہیں بلکہ غیر مقبول ہے کیونکہ ایمان بالغیب نہیں رہابلکہ یہ تو عذاب آخرت دیکھ کر خوف سے ایمان لانا ہے۔ (صحیح یہ ہے کہ مومن کی تو بہ بھی اس وقت غیر مقبول ہے) (۲) عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہے جو غیب کادعویٰ کرے اس کاایمان فنا ہوجاتاہے۔