عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسا سرمہ لگایا جس میں خوشبو ملی ہوئی نہیں ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس پر دم یا صدقہ کوئی جزا واجب نہیں ہے اگرچہ بلاعذر استعمال کیا ہو لیکن اس کو بلا ضرورت استعمال نہ کرنا اولیٰ ہے کیونکہ اس میں زینت پائی جاتی ہے اور اگرضرورت ہو تو اس کا ترک اولیٰ نہیں ہے ، خوشبو دار سرمہ لگانے میں کثرتِ فعل کا اعتبار ہے کثرتِ خوشبو کا نہیں، پس ایک یا دودفعہ لگانے سے دم واجب نہیں ہوگا اگرچہ سرمہ میں بہت زیادہ خوشبو ملی ہوئی ہو ۱۰؎ ، اگر خوشبو دار سرمہ ضرورت کی وجہ سے لگایا تو کفارہ بطور تخییر واجب ہوگا ۱۱؎ (یعنی دم واجب ہونے کی صورت میں وہ دم (قربانی ) ذبح کرے یا روزے رکھے یا کھانا کھلائے اور صدقہ واجب ہونے کی صورت میں صدقہ دینے یا روزہ رکھنے میں اختیار ہوگا کما مرفی القواعد الکلیۃ ،مؤلف) خوشبو کو دوا کے طور پر استعمال کرنا : (۱)اگرخالص خوشبو کو دوا کے طور پر لگا یا یاایسی دوا لگائی جس میں خوشبو غالب ہے اور وہ دوا خوشبو ملانے کے بعد پکائی نہیں گئی پس جب وہ خالص خوشبو یا خوشبو والی دوا زخم ( یا پھوڑے پر لگ گئی اور وہ جگہ ایک بڑے عضو کے برابر یا اس سے زیادہ نہیں ہے تو صدقہ واجب ہوگا لیکن اگراس کو دوسری مرتبہ لگایا تو د م واجب ہوگا کیونکہ کثرت فعل کثرتِ خوشبو کے حکم میں ہے، اور اگر زخم ایک بڑے عضو کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو ایک دفعہ کے لگانے سے ہی دم واجب ہوگا ۱۲؎ لیکن اس کوکفارہ ادا کرنے میں دم یاروزہ یا صدقہ میں اختیار ہوگا جیسا کہ آگے آئے گا ۱۳؎ اگر خوشبو دوا میں ملاکر پکائی گئی ہو تو اس کے لگانے سے کچھ بھی واجب نہیں ہوگا ۱۴؎