عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو چیزیں بذاتہ نجس نہیں لیکن کسی بجاست کے لگنے کی وجہ سے ناپاک ہوگئیں ان کے پاک کرنے کے دس طریقے ہیں: ۱۔ دھونا پانی اور ہر پتلی اور بہنے والی پاک چیز سے جس سے نجاست دور ہوسکے اس سے نجاست کا پاک کرنا جائز ہے جیسے سرکہ، گلاب اور زعفران کا پانی و عرق، باقلا کا پانی اور درختوں، پھلوں اور تربوز کا پانی وغیرہ جن سے کپڑا بھگو کر نچوڑیں تو نچڑ جائے، جس میں چکنائی ہو اور جو نہ نچڑ سکے تو اس سے نجاست دور کرنا جائز سکے تو اس سے نجاست دور کرنا جائز نہیں جیسے تیل، گھی، شوربا، چھا چھ (لسی) دودھ شہد، اور شیرہ وغیرہ، مستعمل پانی سے بھی نبجاست حقیقی دور کرنا جائز ہے، یہ امام محمدؒ کا قول ہے، اور ایک روایت امام ابو حنیفہؒ سے بھی یہی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (نجاست حکمی یعنی وضو غسل اس سے جائز نہیں)۔ اگر نجاست نظر آنے والی ہو (یعنی خشک ہوجانے پر نظر آئے جیسے خون پاخانہ وغیرہ) تو نجاست کا وجود دور کیا جائے اور جبکہ وہ چیز ایسی ہو کہ اس کا اثر دور ہو جایا کرتا ہے تو اس کا اثر بھی دور کیا جائے اس میں عدد کا اعتبار نہیں۔ پس اگر ایک ہی مرتبہ کے دھونے میں نجاست اور اس کا اثر (رنگ و بو) چھوٹ جائے تو وہی کافی ہے لیکن تین بار دھونا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ میں بھی نہ چھوٹے تو اس وقت تک دھووے جب تک وہ بالکل نہ چھوٹ جائے اور اگر وہ نجاست اس قسم کی ہے کہ اس کا اثر بغیر مشقت کے دور نہیں ہوتا جیسے گیلا گوبر یا خون یا پاخانہ وغیرہ اس طرح کہ اس کے دور کرنے میں پانی کے سوا اور کسی چیز کی بھی ضرورت پڑتی ہے جیسے صابون، سجی وغیرہ تو اس کے دور کرنے میں تکلف نہ کرے اور اسی طرح گرم پانی سے دھونے کا تکلف نہ کرے، اسی بنا پر فقہا نے کہا ہے