عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اگرصرف فرج داخل تک آیا اور فرج خارج تک نہیں پہنچا تو وہ حیض ونفاس نہیں ہوگا اس لئے اس عورت پر غسل فرض نہیں ہو گا (ع ودر وغیرہما) (۲) اگر کسی عورت کے بچہ پیدا ہوا اور خون ظاہر نہ ہواتو اصح یہ ہے کہ اس پر غسل فرض ہوگا (ع وغیرہ) (حیض ونفاس کے مسائل آگے الگ بیان میں ہیں، (مولف) اقسام غسل غسل (۱) کبھی فرض، (۲) کبھی واجب، (۳) کبھی سنت، (۴) اور کبھی مستحب ہوتا ہے (بدائع) پس غسل کی ان چار قسموں میں سے پہلی قسم غسل فرض تین طرح کا ہے (۱) غسل جنابت، (۲) غسل حیض، (۳) غسل نفاس۔(ع وکبیری وبدائع وغیرہ) دوسری قسم غسل واجب چار طرح کا ہے (۱) مردہ (میّت) کا غسل (ع وغیرہ) پس مسلمان میت کو غسل دینا زندہ مسلمانوں پر بالاجماع واجب علی الکفایہ ہے اگر بعض مسلمانوں نے اس کو ادا کردیا تو باقی لوگوں کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ورنہ سب گنہگار ہوں گے جبکہ ان کو اس میت کا علم ہو، خنثیٰ مشکل کوغسل دینے میں فقہا کا اختلاف ہے بعض نے کہا کہ اس کو تیمم کرایا جائے اور بعض نے کہا کہ اس کے کپڑوں میں غسل دیا جائے، پہلا قول اولیٰ ہے لیکن کافر مردہ کا اگر کوئی مسلمان ولی نہ ملے تو نجس کپڑے کی طرح اس کے اوپر سے پانی بہا دیا جائے اس کو مسنون طریقے سے غسل نہ دیا جائے (ش) (غسل میت کی تفصیل کتاب الجنائز میں ہے، مؤلف) (۲) کا فرجنبی (خواہ مرد ہویا عورت جبکہ وہ نہایا نہ ہو یا نہایا ہو مگر شرعاً وہ غسل صحیح نہ ہوا ہو) جب اسلام لائے تو اس پر غسل واجب ہونے