عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) ایمان اختیاراورعقل وہوش سے لانا۔ایمان بالجبر مثلا ً کافر کوکوئی زبردستی کلمہ پڑھائے۔ نیز مست وبیہوش کے ایمان کااعتبار نہیں۔ (۴،۵) اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حلال اورحرام کی ہوئی چیزوں کو حرام جاننا۔ (۶) قہرِ الٰہی اور اس کے عذاب سے ڈرنا۔ (۷) اُس کی رحمت کاامیدوار رہنا۔ پس اگر کوئی دل میں خوفِ الٰہی نہ رکھتے ہوئے غیبت کرے یا جھوٹ بولے یاکسی مؤمن کو ایذادے تواُس کا ایمان بھی جاتا رہے گا اورجو رحمت الہٰی سے ناامید ہوا یعنی یہ یقین کیاکہ وہ توہر گز نہیں بخشے گا تو وہ شخص کافر ہوجائے گا۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اَلایمَانُ بَینَ الخَوفِ وَالرِجآئِ ’’ایمان خوف اوراُمید کے درمیان ہے‘‘۔ ایمان کو دل اورزبان سے قبول کرناا س کی حقیقت ہے اور عمر بھر میںایک دفعہ ایمان لانا اور اس پر مرتے وقت تک قائم رہنافرض ہے اس کے بعد تکرار ایمان سنت ہے۔ ایمان کے باقی رہنے کی تین شرطیں ہیں:۔ (۱) ایمان کا شکر یہ بجا لانا کیونکہ یہ فضل الہٰی ہے (۲) خوف زوال یعنی یہ خوف رکھے کہ کہیں یہ دولت جاتی نہ رہے (۳) مخلوق خدا پر ظلم نہ کرنا۔ ان باتوں پر عمل کرنے سے ایمان باقی رہتا ہے۔ فائدہ: امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایما ن کم وبیش نہیں ہوتا کیونکہ ایمان تصدیق قلبی ہے اور تصدیق کیف ہے جس میںکمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ اعمال صالحہ نفس ایمان سے خارج ہیں لیکن ایمان میں کمال کوبڑھاتے اورخوبی پیدا کرتے ہیں (اسی لئے بد اعمال والے کا ایمان نہیں جاتا) جس قدر طاعت زیادہ ہوگی اسی قدر ایمان زیادہ کامل ہوگا۔ پس عام مومنوں