عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اسی پر فتویٰ ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک دھوئے جانے والے عضو پر پانی کا لگ جانا کافی ہے خواہ اس سے قطرے گریں یا بالکل کوئی قطرہ نہ گرے اس کاوضو جائز ہے اور مسح کا مطلب مسح کے عضو کو پانی کوپانی لگا نا ہے یعنی گیلا ہاتھ پھیرنا ہے۔ (بدائع وہدایہ وفتح وبحرودروش وم وط و ع ملتقطاً) وضو کے فرائض اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یٰآیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُو اِذَا قُمتُم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغسِلُو وُجُوھَکُم وَاَیدِیَکُم اِلَی المَرَافِقِ وَامسَحُوا بِرُؤُسِکُم وَاَرجُلَکُم اِلَی الکَعبَینِO (المائدہ: ۶) ’’اے ایمان والو! جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اپنے منہ کو اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور اپنے کچھ سر کا مسح کر لو اور اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھولو‘‘ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نماز کے لئے وضو کرنا فرض ہے اور وضو میں چار فرض ہیں یعنی تین اعضا کا دھونا اور ایک عضو کا مسح کرنا، اگر ان میں سے ایک کو بھی ترک کرے گا تو نماز نہ ہوگی اور وہ یہ ہیں: ۱۔ منہ ایک بار دھونا، ۲۔ دونوں ہاتھوں کاکہنیوں تک (کہنیوں سمیت) ایک بار دھونا، ۳۔ بعض حصہ سر کا مسح، ۴۔ دونوں پاؤں کا (ٹخنوں سمیت) ایک بار دھونا۔ ان چاروں فرائض کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (مؤلف من عامتہ الکتب) ۱۔ وضو کا پہلا فرض: منہ کا ایک بار دھونا۔ (بدائع وغیرہ) اس کی تفصیل یہ ہے: ۱۔ ظاہر الروایت میں چہرے کی حد بیان نہیں کی ہے غیر ظاہر الروایت میں اس کی حد یہ بتائی ہے کہ لمبائی میں ابتدائے پیشانی سے یعنی جہاں سر کے اگلے حصے کے بال عام طور پر اگنے شروع ہوتے ہیں وہاں سے تھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان کی لو سے