عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گا خاص جدہ میں آنے کی نیت نہ تھی بلکہ محض گزرگاہ کے طور پر آنا ہوا اور پھر اگر یہاں سے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ کرلیا تو اب اس کو یہیں سے احرام باندھنا پڑے گا کیونکہ وہ شخص یہاں کے رہنے والوں کے حکم میں داخل نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے لئے حدودِ حرم سے پہلے حل میں کسی جگہ سے احرام باندھنا جائز ہوتا ، خوب سمجھ لیجئے ۱؎ حدود الحرم زادہ اﷲ تعالیٰ شرفا وامنا وتعظیما (۱) حرمِ مکہ معظمہ کی حد مدینہ منورہ کے راستہ پر تنعیم کے پاس بیوتِ غفار کے نزدیک ہے جو مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے، اور عراق کے راستہ پر یہ حد مکہ معظمہ سے سات میل کے فاصلہ پر ثنیہ حَلّ کے پاس ہے جو کہ مقطع میں ہے، اور طائف کے راستے پر عرفات کے پاس بطنِ عرنہ(بطنِ نمرہ) میں ہے جو کہ مکہ مکرمہ سے سات میل ہے ازرقی نے گیارہ میل کہا ہے اور جدہ کے راستہ پر مکہ معظمہ سے دس میل کے فاصلہ پر حدیبیہ تک ہے جس کو بیر شمیس (بصیغہ تصغیر ) بھی کہتے ہیں۔اور اب اس مقام کا نام شمیسی ہے اس کے قریب تھوڑا مکہ مکرمہ کی طرف کو دوستون حد حرم کی علامت کے لئے بنے ہیں۔ مبسوط میں ہے کہ حدیبیہ کا نصف حصہ حرم میں ہے اور نصف حصہ حل میں اھ۔ اور بلاشبہ نبی کریم ﷺ نے ہمارے نزدیک (صلح حدیبیہ کے وقت ) حدِ حرم میں دمِ احصار کی قربانی کی، اور جعرانہ کے راستہ پر یہ حد مکہ مکرمہ سے نو میل کے فاصلہ پر شعب آل عبداﷲ بن خالد کے پاس ہے اور یمن کے راستہ پر یہ حد مکہ معظمہ سے سات میل کے فاصلہ پر ثنیہ لبن میں اَضَائَ ۃِ لبن کے پاس ہے ،اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حدیبیہ کا نصف حصہ حرم میں ہے اور نصف حصہ حل میں اس کے علاوہ باقی حدود کی انتہا حل میں ہے ۱؎ علامہ ازرقی وامام نووی وغیرہما ایک جماعتِ کثیرہ نے حدودِ حرم کو اسی طرح بیان کیا