عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کی طرف سے امر کا شرط ہونا مشہور ہے اور چونکہ وارث میں امر کا پایا جانا دلالۃً معلوم ہے اس لئے کنز وغیرہ میں والدین کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس کاتیسرا فائدہ یہ ہے کہ جو امر دلالۃً ثابت ہووہ امر حقیقی کے حکم میں ہر لحاظ سے نہیں ہوتا اس لئے کہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ اگر والدین نے اپنے بیٹے کو حقیقۃً امر کیا ہو تو نیت ابہام کے بعد ان دونوں میں سے کسی ایک کو معین کرنا صحیح نہیں ہے جیساکہ دو اجنبیوں کے متعلق حکم ہے اور اگر والدین نے اس کو صریحاً امر نہ کیا ہو تو ایک کا معین کرنا صحیح ہے اور اگر وہ شروع سے اس مسئلہ کو دو اجنبیوں کے بارے میں فرض کرلیتے تو یہ توہم ہوتا کہ دلالۃً امر پائے جانے کی صورت میں والدین میں سے کسی ایک کو معین کرنا درست نہیں ہے پس ان کتابوں ( کنز وغیرہ) میں اس مسئلہ کو والدین کے بارے میں فرض کرلیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے ان میں سے ایک کا معین کرنا صحیح ہے اگرچہ امر دلالۃً پایا جائے اور تاکہ یہ فائدہ بھی حاصل ہو کہ پہلے مسئلہ میں امر سے مراد امرِ صریح ہے واﷲ اعلم ۱؎ خلاصہ البیان : ان تمام عبارتوں سے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں ہمیں یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر کس شخص نے دو شخصوں کی طرف سے حج کااحرام باندھا تو اگر ان دونوں نے اس کو حج کا امر کیا تھا تو حج کا احرام یقینا اس مامور کی طرف سے واقع ہوگا اگرچہ وہ احرام باندھنے کے بعد اسکو ان دونوں میں سے کسی ایک کے لئے معین کردے اور حج سے فارغ ہونے کے بعد اس کے لئے جائز ہے کہ اس کا ثواب ان دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کو بخش دے ، اور اگر ان دونوں نے اس کو امر نہیں کیا تب بھی یہی حکم ہے لیکن اگر وہ وارث ہو اور میت کے ذمہ حج فرض ہو اور میت نے اس کی ادائیگی کے لئے وصیت نہ کی ہوتو یہ (تبرعاً کیا ہوا) حج میت کی طرف سے فرض حج کی جگہ واقع ہوگا