عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اﷲ ﷺ کے ہمراہ (مدینہ منورہ سے حج کے لئے نکلے تو ہم میں سے بعض نے صرف عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور آنحضرت ﷺ نے حج کا احرام باندھا (الحدیث) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہم میں سے بعض نے حج افراد کا احرام باندھا اور بعض نے قران کا اور بعض نے تمتع کا۔ اور اوپر کی عبارت میں دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ ان تینوں میںسب سے افضل قران ہے پھر تمتع پھر افراد ۴؎ اور یہ طرفین کے نزدیک ہے، امام ابو یوسفؒ کے نزدیک قران و تمتع دونوں برابر ہیں ۵؎ اور احناف کے نزدیک قران کی افضلیت کے لئے یہ حدیث دلیل ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’اے آلِ محمدﷺحج وعمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھو‘‘ ۶؎ امام طحاوی نے شرح الآثار میں اس حدیث کو اپنی سند سے روایت کیا ہے ۷؎ اور اس لئے بھی افضل ہے کہ اس میں دو عبارتو ں کو جمع کیا جاتا ہے ۸؎ اور افضلیت کی یہ بحث آفاقی کے بارے میں ہے ورنہ افراد افضل ہے ۹؎ بلکہ غیر آفاقی کے لئے تمتع و قران نہیں ہے بلکہ ان کے لئے حجِ افراد ہی مخصوص ہے ۱۰؎ اور امام شافعیؒ نے فرمایا کہ افراد افضل ہے ۱۱؎ یعنی حج اور عمرہ دونوں کو الگ الگ احرام سے ادا کرنا جیسا کہ زیلعی کے خلاف نہایہ وعنایہ وفتح القدیر میں اسی پر اعتماد کیا ہے ۱۲؎ عنایہ کے حاشیہ چلپی میں ہے کہ یہ بات محتاجِ بیان ہے کہ افراد سے مراد افرادِ حج ہے یا افرادِ عمرہ ہے یا دونوں کا الگ الگ احرام سے ہونا ہے، نہایہ میں ہے کہ اس سے مراد تیسرا قول ہے پہلے دوقول مراد نہیں الخ ۱۳؎ قارن اور متمتع کی ہدی کے مسائل