عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے اس لئے بلا ضرورت اس سے نماز نہیں پڑھنی چاہئے، موزوں کے نیچے کپڑے وغیرہ کی جراب پہن لینا موزوں پر مسح کے جواز کو مانع نہیں یہی صحیح ہے۔ ۲۔ مسح میں دو فرض ہیں: ۱۔ موزوں کے اوپر کی جانب سے مسح کرے، ۲۔مسح دونوں پائوں پر باتھ کی تین انگلیوں کی برابر کرے یہی اصح ہے۔ ہاتھ کی تین چھوٹی انگلیوں کے برار مسح فرض ہے اور یہ دونوں فرض عملی ہیں۔ موزے کے نیچے کی جانب یا ایڑی پر یا ساق پر یا اس کے اطراف میں یا ٹخنے پر مسح جائز نہیں۔ اگر ایک پائوں پر بقدر دو انگشت مسح کرے اور دوسرے پر بقدر چار یا پانچ انگشت کے تو جائز نہیں، اگر موزہ پائوں سے بڑا ہو تو موزہ پر ایسی جگہ مسح کرنے کا اعتبار نہیں جو پائوں سے خالی ہے یعنی فرص ادا نہیں ہوگا اور اگر اس جگہ میں پائوں لیجا کر مسح کر لے تو جائز ہے اور اس کے بعد اس کا پائوں اس جگہ سے جدا ہو جائے تو دوبارہ مسح کرے۔ اگر کسی شخص کے ایک پائوں پر زخم ہو اور وہ نہ اس کے دھونے پر قادر ہو نہ اس کے مسح پر تو اس کو مسح معاف ہے اور صرف دوسرے پائوں کے موزہ پر مسح کرکے نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح اگر پائوں ٹخنہ کے اوپر سے کٹ گیا تو بھی یہی حکم ہے اور اگر ٹخنہ کے نیچے سے کٹا اور مسح کرنے کی جگہ بقدر تین انگشت کے باقی ہے تو دونوں پائوں کے موزوں پر مسح کرے گا اور اگر بقدرِ فرض باقی نہیں تو دونوں پائوں کو دھوئے کیوں کہ مسح کا محل باقی نہیں مگر غسل کا محل باقی ہے، اگر کسی شخص کا ایک ہی پائوں پیدائشی ہے تو اسی ایک کے موزہ کو مسح کرے۔ ۳۔ مسح تین اگشت سے کرے یہی صحیح ہے، اگر ایک ہی انگلی سے تین دفعہ تین الگ الگ جگہ مسح کرے اور ہر دفعہ نیا پانی لے تو جائز ہے اور نیا پانی نہ لے تو جائز نہیں۔ اسی طرح