عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
روایت یے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اتا کم رمضان شھر مبارک فرض اللہ علیکم صیامہ الحدیث رواہ احمد و لنسائی۔اجماع امت سے بھی روزہ کی فرضیت ثابت ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے زمانے سے آج تک تمام اہل اسلام کا اس کی فرضیت پر اجماع ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔عقلی طریق سے بھی اس کی فرضیت ثابت ہے کیونکہ روزہ نعمت کا شکر کا وسیلہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لعلکم تشکرون :تاکہ تم شکر گزار بن جائو اور روزہ میں نفسانیات کی خلاف ورزی اور خواہشات کو توڑنا پایا جاتا ہے جیسا کہ روزہ کی مشروعیت کی حکمت اور اس کے محاسن میں آتا ہے پس اس سے معلوم ہوگیا کہ روزہ عقلا و نقلا فرض ہے ۔اس لئے جو شخص اس کا انکار کرے اس کا کفر ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ ۲۔ رمضان المبارک کی فرضیت قبلہ کے بیت القدس کی طرف سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل ہونے کے بعدع اور مدینہ منورہ زاداللہ شرفا و تعظیما کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ہجرت فرمانے کے ڈیڑھ سال بعد شعبان کے عشرہ میں ہوئی پس ہجرت کے دوسرے سال یعنی اٹھارہیوں مہینے میں رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ مواہب لدنیہ میں ہے کہ تحویل قبلہ ہجرت نبویﷺ کے سترہویں مہینے کے شروع میں ماہ رجب میں ہوئی اور رمضان کے کے روزے ہجرت کے اٹھارہویں مہینے کے شروع میں ماہ شعبان میں فرض ہوئے ار رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں نو سال رمضان المبارک کے روزے ادا فرمائے کیونکہ مدینہ طیبہ میں حیات دنیوی کے ساتھ آپ ﷺ کے تشریف فرما رہنے کی مدت دس سال ہے اور ان میں سے پہلے سال میں رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے ان نو سال میں دو رمضان تیس تیس روزکے ہوئے اور باقی رمضان انتیس انتیس دن کے ہوئے ۔ روزہ کی تعریف: