عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے حج کیا تو بیشک اس نے اس کی طرف سے حج ادا کردیا اور اس کو دس زائد حج کا ثواب ملے گا ۷؎ ۔ جو چیزیں نیابتِ حج کے لئے شرط نہیں ہیں : (۱) کسی دوسرے شخص سے حج کرانے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ مامور بالحج نے اپنا فرض ادا کرلیا ہو یہ حکم احناف اور امام مالک رحمہم اﷲ کے نزدیک ہے پس مامور نے اپنا حج فرض ادا کرلیا ہو یا نہ کیا ہو دونوں حالتوں میں اس کو دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ خلافِ فقہا سے بچنے کے لئے ایسے شخص سے حج کرایا جائے جو اپنا فرض حج پہلے ادا کرچکا ہو کیونکہ خلافِ فقہا سے بچنا مستحب ہے اور اس میں فقہا کا اختلاف ہے جو آگے آتا ہے اور اس لئے بھی یہ افضل ہے کہ اپنا حج ادا کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے میں مامور اپنا فرض ادا کرنے کا تارک (یعنی تاخیر کرنے والا) ہوجائے گا پس ایسے شخص سے حج کرانے میں کراہت لازم ہوگی اور اس لئے بھی یہ افضل ہے کہ جو شخص ایک دفعہ حج ادا کرچکا ہے وہ حج کے مسائل سے زیادہ واقف اور خلافِ مناسک امور سے زیادہ بچنے والا ہوگا پس ایسا شخص حج بدل کے لئے افضل ہوا ۸؎ اور اسی کی مثال فتاویٰ ظہیریہ و شرح الطحاوی میں بھی ہے ۹؎ اور امام شافعی رحمہ اﷲنے فرمایا کہ جس نے اپنا حج نہ کیا ہو اس کو کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنا جائز نہیں ہے اور اس کا وہ حج اسی کی طرف سے واقع ہوگا اور وہ آمر کے نفقہ کا ضامن ہوگا اور امام شافعی رحمہ اﷲ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ روایت ہے آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتے ہوئے سنا تو آپﷺ نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس شخص نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا یہ کہا کہ میرا دوست ہے