عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرضیت کا علم حاصل نہ ہوجائے اور جب اس کو علم ہوجائے گا تو اس وقت سے اس پر روزے فرض ہوجائے گے۔ اور اس پر گذرے ہوئے دنوں کی قضا لازم نہیں ہوگی اس لئے بغیر علم کے وہ مکلف نہیں ہے کیعنکہ وہاں پر چہل اس کے لئے عذرت ہے اور بے شک اس کو روزہ کی وجوب کا علم مومستورالحال مردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں مستورالحال یا ایک عادل مرد کے خبر دینے سے حصل ہوجائے گا اور صاحبین کے نزدیک خبر دینے والے میں عادل ہونا شرط نہیں ہے اگرچہ وہ خبر دینے والا ایک ہی مرد ہو اور بالغ اور آزاد ہونا بھی شرط نہیں اور جو شخص دارلاسلام میں ہو (یعنی وہیں پیدا ہو ہو یا اب وہاں رہتا ہو)اور مسلمان ہو اس پر ہر حال میں روزہ فرض ہے خواہ اس کو روزہ کی فرضیت کا علم نہ بھی ہو کیونکہ دارلاسلام میں روزہ کی فرضیت ہیت بے علم ہونا عذر نہیں (قسم دوم)روزہ کی ادا کے واجب ہونے کی شرطیں اور وہ دو ہیں (۱) صحت یعنی تندرست ہونا (۲) اقامت یعنی مقیم ہونا (پس بیمار اور مسافر پر اس وقت میں روزہ ادا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ ان دونوں کو روزہ کا افطار یعنی نہ رکھنا جائز ہے اور ان دونوں پر تندرستی و اقامت کے بعد ان روزوں کی قضا کرنا فرض ہے اور اگر ان دونوں کو مشقت و ضرر نہ ہو تو انہی دنوں میں روزہ رکھنا افضل ہے ) پس جو شخص مریض یا مسافر ہو اور اس کو روزہ رکھنے میں مشقت و ضرر ہو تو اس کو افطار کرنا چاہیے اور اس پر ان دنوں کی تعداد کے مطابق جن میں اس نے روزے نہیں رکھے تندرستی کے بعد یا اقامت کے بعد قضا روزے رکھنا فرض ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر تخفیف و رحمت ہے لیکن اگر اس کو کوئی مشقت و ضرر نہ ہو تو انہی دنوں میں روزہ رکھنا افضل ہے تاکہ اس وقت کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے اور فرض کی ادائیگی سے فارغ بھی ہوجائے۔