عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں بیس سے اوپر مذکور ہیں ، خزائن الاسرار میں وضو کی سنتوں کو تیس سے کچھ اوپر اوروضو کے آداب کو ستر سے کچھ اوپر بیان کیا ہے (؟) اور وہ آداب بلا تحدید مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ پانی کے استعمال میں نہ اسراف (زیادتی) کرے اور نہ کمی کرے (؟) ضرورت شرعیہ یعنی تین دفعہ سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور مکروہ ہے اگرچہ نہر وغیرہ کے کنارے پرہو ، اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ پانی آب مباح یعنی نہر وغیرہ کا ہویا اپنی ملک ہو اور اگر وہ پانی طہارت اور وضو کرنے والوں کے لئے وقف ہو تو بلا خلاف اسرف اور زیادتی حرام (و گناہ) ہے لیکن اگر اطمینان قلب یادوسرے وضو کی نیت سے تین مرتبہ سے زیادہ دھوئے تو مضائقہ نہیں۔ جیساکہ وضو کی سنتوں میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے (ط وفتح وبحرودرو ع وکبیری) اور پانی کے استعمال میں کمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسنون حد (تین مرتبہ) سے کم استعمال کرے (؟) ۲۔ وضو خود کرنا اور بلا عذر کسی دوسرے کی مدد نہ لینا تاکہ عبادت کو کسی کی مدد کے بغیر بذات خود قائم کرے ، اگر معذور ہو (مثلاً برتن بھاری ہو یابیماری ہو یا کبر سنی ہو) تو مدد لینا جائزہے (؟) اگر خادم پانی ڈالتاجائے (اور خود دھوتا جائے) تو مضائقہ نہیں ہے (فتح وبحر مجمع) پس اگر وضو کرنے میں صرف پانی ڈالنے یا پانی کنوئیں سے نکالنے پانی لاکر دینے میں کسی دوسرے سے مدد لے تو اس میں مطلقاً کراہت نہیں ہے اور جائز ہے خواہ یہ مدد اس نے طلب کی ہو ، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہ اعضا کے دھونے میں کسی دوسرے کی مدد نہ لے بلکہ خود ہی دھوئے اور اگر اعضا کے دھونے اور مسح کرنے میں بلا عذر کسی دوسرے کی مدد لے تو مکروہ ہے۔ (ش تصرفاً) ، ۳۔ کنوئیں وغیرہ سے پانی خود نکالنا۔ (فتح وش) ، ۴۔ اونچی جگہ پر بیٹھ کر وضو کرنا۔ (دروع وم) ،