عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وجوبِ ادا سب کی سب پائی جائیں تو اس شخص کو خود حج کرنا فرض ہے اور اگر کسی شخص میں شرائطِ وجوبِ حج تمام موجود ہوں لیکن شرائطِ وجوب ادا میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جاتی ہو تو پھر خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو بھیج کر فی الحال حج کرانا یا مرنے کے وقت اپنے مال میں سے حج کرانے کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے ۵؎ یہ دوسری قسم کی تمام شرائط ایسی ہیں جن میں ہمارے فقہا کا اختلاف ہے کہ یہ وجوبِ حج کی شرائط ہیں یاوجوبِ ادا کی ، بخلاف پہلی قسم یعنی شرائطِ وجوبِ حج کے کہ وہ سوائے وقت کے سب متفق علیہا ہیں اور وقت میں بھی معمولی سا اختلاف ہے ۶؎ راجح یہی ہے کہ وہ شرائطِ وجوبِ ہے اسی لئے اس کا ذکر اُن میں کیا گیا ہے ۷؎ اس دوسری قسم کی پانچ شرطیں ہیں ۱؎ اور وہ یہ ہیں ۔(۱)تندرست ہونا اور بدن کی سلامتی ۔…(۲) راستہ کا پرامن ہونا۔… (۳)قید نہ ہونا یا بادشاہ کی طرف سے ممانعت نہ ہونا۔…(۴)عورت کے لئے محرم کا ہونا ۔… (۵)عورت کا عدت سے خالی ہونا ۲؎ پہلی تین شرطیں مردوں اورعورتوں سب کے لئے عام ہیں اور اخیر کی دو شرطیں عورتوں کے لئے خاص ہیں ۳؎ ان پانچوں شرطوں کے احکام مندرجہ ذیل ہیں (مؤلف) تندرست ہونا اور بدن کی سلامتی : (۱)دوسری قسم یعنی وجوبِ ادا کی شرطوں میں سے ایک شرط بیماریوں اور علتوں سے بدن کی سلامتی ہے، بعض نے کہا کہ یہ پہلی قسم یعنی وجوبِ حج کی شرط ہے اور بحر العمیق میں ہے کہ یہی صحیح مذہت ہے اوربعض نے کہا کہ یہ دوسری قسم یعنی وجوبِ ادا شرط ہے۔ قاضی خاں نے شرحِ جامع صغیرمیں اس کی تصحیح کی ہے اور بہت سے مشائخ نے اس کو اختیار کیا