عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان سب کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:۔ اسلام : صحتِ ادائِ حج کی پہلی شرط مسلمان ہوناہے پس کافر کا حج صحیح نہیں ہوتا خواہ حج فرض ہویا نفل اس کابیان اور مسائل شرائطِ وجوب میں گزرچکے ہیں ۲؎ احرام : دوسری شرط احرام ہے اور احرام حج کے صحیح ہونے کے لئے ایسی شرط ہے جیسی کہ طہارت نماز کے لئے شرط ہے اور مشروط بغیر شرط کے صحیح نہیں ہوتا پس احرام کے بغیر حج ہر گز صحیح نہیں ہوتا ۳؎ حج کا زمانہ : تیسری شرط حج کا زمانہ ہونا ہے یعنی حج کے افعال طوافِ قدوم، سعی، وقوف وغیرہ کا حج کے مہینوں میں اپنے اپنے وقت پر واقع ہونا پس حج کے افعال مثلاً طوافِ قدوم اور حج کی سعی حج کے مہینوں سے پہلے کرنا جائز نہیں بخلاف احرام کے کہ یہ پہلے سے باندھ لینا بھی درست ہے لیکن مکروہ ہے اور وقوفِ عرفات یومِ عرفہ سے پہلے یا عرفہ کے دن زوال سے پہلے جائز نہیں اور یومِ عرفہ کے بعد یعنی دس ذی الحجہ کو طلوعِ فجر کے بعد بھی وقوفِ عرفات جائز نہیں ہے (کیونکہ عرفہ کے روز یعنی نویں ذی الحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی طلوعِ فجر سے پہلے تک وقوفِ عرفہ کاوقت ہے ۴؎ ) لیکن جب یومِ عرفہ میں چاند کی وجہ سے شبہ واقع ہوجائے تو اس ضرورت کی وجہ سے دسویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد وقوف جائز ہے جیسا کہ اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی انشاء اﷲ۔ اور طوافِ زیارت وطوافِ وداع قربانی کے دن سے پہلے جائز نہیں اور طوافِ زیارت ایام قربانی کے بعد (آکر عمر تک ) صحیح