عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رکن غسل جسم کے ہر حصہ پر ایک مرتبہ پانی پہنچانا غسل کارکن ہے جس پر مشقت کے بغیر پانی پہنچانا ناممکن ہو، حتی کہ اگر جسم کے ذرا سے حصہ پر بھی پانی نہ پہنچا تو غسل جائز وصحیح نہیں ہوگا۔ (بدائع وبحروش) فرائض غسل: (۱) غسل میں تین فرض ہیں اور وہ یہ ہیں: ۱۔ کلی کرنا، ۲۔ ناک میں پانی ڈالنا، ۳۔ سارے بدن کو ایک بار دھونا (منیہ وع وقدوری وغیرہا) یعنی کلی وناک میں پانی ڈالنے کے علاوہ باقی تمام بدن کوایک بار دھونا (کبیری) اور غسل سے مراد غسلِ فرض یعنی جنابت وحیض ونفاس کا غسل ہے جیسا کہ سراج الوہاج میں مذکور ہے اور سراج الوہاج کا ظاہر کلام اس پر دلالت کرتاہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل مسنون میں شرط یعنی فرض نہیں ہے کیونکہ غسل مسنون ان دونوں کے بغیر بھی ادا ہوجاتا ہے (بحرومنحہ ودر تصرفاً) اور ان دونوں کے غسل مسنون میں فرض نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ترک کرنے سے وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا اور یہ مرد نہیں کہ غسل مسنون کا صحیح اد اہونا ان دونوں پر موقوف نہیں ہے (ش) (۲) کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی حد وضو کے باب میں بیان ہوچکی ہے (ع) (۳) جنبی نے اگر پانی پیا اور منہ سے باہر نہیں لا تو وہ کلی کی بجائے کافی ہے جبکہ وہ سارے منہ میں پہنچ جائے (ع) یعنی فرض کے ادا ہونے میں منہ بھر کو پانی پینا کافی ہے اس لئے کہ اصح قول کے مطابق کلی کی فرضیت ادا ہونے کیلئے کلی کے پانی کا باہر پھینکنا شرط نہیں ہے (در) پس اگر منہ بھر کے پانی پیا کہ جس سے سارا منہ اندر سے دھل گیا تو کلی کا فرض ادا ہوگیا اور اگر چوس کر پانی پیا تو فرض ادا نہیں ہوگا (اس لئے کہ چوسنے سے سارے منہ کے اندر پانی نہیں پہنچتا (غایۃ الاوطار) اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جب تک کلی کا پانی منہ سے باہر نہ ڈالے کلی کا