عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرض: اُس حکم کو کہتے ہیں جو دلیل قطعی اوریقینی سے کہ جس میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو ثابت ہو۔ جیسا کہ آیت قطعی یاحدیث متواتر کہ اس میں اور کوئی احتمال نہ ہو یا صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہو، جو اس کا انکا کرے کافر ہے اور بغیر عذر چھوڑنے والافاسق اور سخت عذاب کا مستحق ہوتا ہے اور یہ اوامر ونواہی دونوں کو شامل ہے اور اکثر اس کا اطلاق ان ہی افعال پر ہوتا ہے جن کا کرنا مقصود ہے۔ واجب: وہ حکم ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو یعنی اس دلیل سے جس میں دوسرا ضعیف احتمال بھی ہو جیسے ذو معنی آیت و حدیثِ احادااور مجتہد کے قیاس سے ثابت ہو۔ اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ فاسق ہے اور اس کا بلاعذر ترک کرنے والا بھی فاسق اور سخت عذاب کا مستحق ہے لیکن فرض سے کم۔ پس فرض اور واجب میں فرق فقط اعتقاد کی راہ سے ہے کہ فرض کا منکر کافر ہے اور واجب کا منکر کافر نہیں بلکہ فاسق ہے لیکن عمل میں جیسا وہ ضروری ہے ویسا ہی یہ بھی ضروری ہے اسی لئے ان کو فرض وواجبِ اعتقادی بھی کہتے ہیں اور اس لحاظ سے فرض وواجب کی ایک قسم عملی ہے یعنی جو دلیل قطعی ایسی نہ ہو جس سے کفر لازم آئے مگر مجتہدکی نظر میں شرعی دلائل کی روسے پختہ یقین ہے کہ اس کے کئے بغیر آدمی بری الذمہ نہ ہوگا اس کا بے وجہ انکار فسق وگمراہی ہے، ہاں دلائل میں نظر رکھنے والا اور مجتہد دلائل شرعیہ سے اس کا انکار کرسکتا ہے لیکن مقلد کو بلاضرورت شرعی اپنے امام کے خلاف کرنا جائز نہیں جیسے حنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اورمالکیہ کے نزدیک پورے سر کا، نیز وضو میں بسم اللہ اور نیت حنفیہ کے نزدیک سنت ہے اور حنبلیہ وشافعیہ کے نزدیک فرض ہے۔ ان کے علاوہ فرض