عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ جب خوشبو سرمہ پر غالب آگئی تو کوئی فرق نہیں ہے خواہ اس کو دوائی کی طور پر استعمال کرے یا خوشبو کے طور پر ۷؎ (فائدہ) : طیب یعنی خوشبو سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں لذت بخش بُو ہو اور عاقل لوگ اس کوخوشبو شمار کرتے ہوں ۸؎ اور ہمارے اصحاب نے کہاہے کہ بدن میں استعمال ہونے والی چیزیں تین قسم کی ہیں:۔ ایک قسم وہ ہے جو محض خوشبو ہے اور خوشبو حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے جیساکہ مشک و کافور وعنبر وغیرہ، ایسی چیز کا استعمال خواہ کسی وجہ سے کیا جائے اس سے کفارہ یعنی جزا لازم آئے گی یہاں تک کہ فقہاہ نے کہا ہے کہا اگر کسی نے حالتِ احرام میں اپنی آنکھ مین خوشبو کو دوا کے طور پر ڈالاتو اس پرکفارہ واجب ہوگا اوردوسری قسم وہ ہے جو فی نفسہٖ خوشبو نہیں ہے اور نہ ہی اس میں خوشبو کی کوئی بات پائی جاتی ہے اور نہ ہی وہ کسی وجہ سے خوشبو بنتی ہے جیساکہ چربی تو خواہ اس کو کھائے یا چکنائی کے طور پر بدن پر ملے یاپاؤں کی پھٹن میں رکھے برابر ہے، اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا اور تیسری قسم وہ ہے جو فی نفسہٖ تو خوشبو نہیں ہے لیکن اس کی اصل خوشبو ہے اور وہ خوشبو کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے اور دوائی اور سالن کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے جیساکہ زیتون کا تیل اور تلوں کا تیل، اس میں استعمال کا اعتبار کیا جائے گا پس اگر ایسے تیل کو بدن میں تیل کے طور پر استعمال کیا تو اس کو خوشبو کا حکم دیا جائے اور اگر کھانے کی چیزوں میں یا پاؤں کی پھٹن میں استعمال کیا گیا تو اس کو چربی کی طرح خوشبو کا حکم نہیں دیا جائے گا ۹؎ بالوں کو دُور کرنا : ممنوعاتِ احرام میں سے کُل یا بعض بالوں کا دُور کرنا ہے خواہ کسی طرح سے بھی دُور کئے جائیں یعنی خواہ اُسترے سے